کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 130
اُردو زبان میں محاورہ ہے کہ جاہلوں کو دور سے سلام۔ ظاہر ہے کہ یہاں سلام سے مراد ترک ِمخاطبت اور ان جاہلوں سے جان چھڑانا مراد ہے۔ ان آیات کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ دشمنانِ حق پرامن و سلامتی کی دعائیں بھیجی جائیں ۔ اس آیت کا یہ مطلب اس آیت کے سیاق و سباق اور شانِ نزول کونظر انداز کردینے کی وجہ سے ہے اور صاف واضح ہورہا ہے کہ یہ منکر ِحق قرآنِ مجیدمیں تحریف کا روادار ہے۔
2. دوسرے مقام پر ارشاد ہے:
﴿وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الاَرْضِ ھَوْنًا وَاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا﴾ (الفرقان:۶۳)
’’اور رحمن کے حقیقی بندے وہ ہیں جو زمین پر انکساری سے چلتے ہیں اور اگر جاہل ان سے مخاطب ہوں تو بس سلام کہہ کر کنارہ کش رہتے ہیں ۔‘‘
ظاہر ہے کہ اس آیت میں بھی اہل ایمان جاہلوں کی بدتمیزی، لغویات اور بے ہودہ باتوں کاجواب دینے کے بجائے اُنہیں سلام مذکورہ کرکے ان سے دور ہوجاتے ہیں ۔ موجودہ دور کے بعض منکرین حدیث نے ان آیات سے مشرکوں اورکافروں کوسلام کرنے کاجواز پیش کیاہے۔
3. اُنہوں نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے واقعے سے بھی استدلال کیا ہے کہ جب ان کے والد نے ان کوگھر سے نکال دیا تو جاتے ہوئے اُنہوں نے بھی سلام علیک کہا تھااور ملت ِابراہیمی کی پیروی کاقرآنِ مجید میں ہمیں حکم دیاگیا ہے۔ حالانکہ اس سلام میں بھی ترکِ مخاطبت کا اظہار ہے جیسا کہ اوپر کی آیات میں اس بات کاذکر ہوا۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ سے یہ وعدہ کیاتھاکہ میں آپ کے لیے مغفرت کی دعا کرتارہوں گا۔لیکن جب اُنہیں معلوم ہوا کہ ان کی وفات کفر پر ہوئی تو ابراہیم علیہ السلام نے اس سے براء ت کااظہار فرما دیا۔ (التوبہ:۱۱۴)
ان آیات میں مشرکوں اورکافروں کو کہاں سلام کرنے کاحکم دیاگیا ہے؟ پھر قولِ لغو اور سلام دونوں ایک دوسرے کے متضاد ہیں اور اہل جنت ، جنت میں لغو اور گناہ کی کوئی بات نہیں سنیں