کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 127
نسائی کی روایت میں ہے کہ اُمیمہ رضی اللہ عنہ نے سورۃ الممتحنہ کی آیت تلاوت کی اور اس آیت کے مطابق بیعت کی۔اس آیت میں چھ باتوں سے روکاگیا ہے: (۱)شرک(۲)چوری(۳) زنا (۴) قتل اولاد (۵) کسی پربہتان گھڑنا اور (۶)معروف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی سے اجتناب۔(الممتحنہ: آیت ۱۲) ان باتوں کے علاوہ آپ عورتوں سے نوحہ نہ کرنے، غم میں گریبان چاک نہ کرنے، سر کے بال نہ نوچنے اور جاہلیت کی طرح بین نہ کرنے پربھی بیعت لیا کرتے تھے۔[1] قرآن مجید میں سلام کے اَحکامات قرآنِ مجید کے مطالعے سے بھی سلام کی اہمیت کااندازہ لگایا جاسکتا ہے : 1. اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ’السلام‘ بھی ہے جس کا مطلب’’امن و سلامتی عطا کرنے والا ہے۔‘‘ (الحشر:۲۳) نبی مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور دعاؤں میں سے ایک دعا کے الفاظ یہ ہیں : (( اللھم أنت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذا الجلال والإکرام›))[2] ’’اے اللہ! تو ہی سلامتی عطا کرنے والا اور تیری ہی طرف سے سلامتی ہے۔ تو بہت بابرکت ہے،اے صاحب ِجلال و اکرام!‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا کو فرض نماز کے بعدپڑھا کرتے تھے۔ 2. اللہ تعالیٰ نے گھر میں داخل ہوتے وقت سلام کہنے کا حکم دیا ہے : ﴿فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰی اَنْفُسِکُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰه مُبٰرَكَةً طَيِّبةًَ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰه لَکُمُ الاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ﴾(النور:۶۱) ’’پس جب تم اپنے گھروں میں داخل ہواکرو تو اپنے لوگوں (گھر والوں ) کو سلام کہاکرو۔ یہ اللہ کی طرف سے مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے۔ اسی طرح اللہ اپنی آیات تمہارے لیے کھول کر
[1] اہل مغرب کی ہر نمائندہ اصطلاح کو ’اسلامی‘ کا سابقہ لگاکر ترویج دینا در حقیقت اسلامی تعلیمات کو مغربی تناظر میں پہچاننے کا نتیجہ ہے اور یہ طرزِ فکر مرعوبیت کے سوا اور کچھ نہیں ۔ غور تو کیجئے کہ تحریک ِتنویر کے آدرشوں پر عمل پیرا ہوکر مغربی اہل علم نے عیسائی علمیت و تہذیبی اداروں کو شکست دی مگر کسی تجدد زدہ مفکر نے کسی نمائندہ عیسائی اصطلاح کو اپنی علمیت میں کوئی جگہ نہ دی۔ اسی طرح استعمار نے مسلمان علاقوں میں خلافت کے ادارے کو ختم کیا تو مسلمان عوام میں اپنی جگہ بنانے کیلئے ’جمہوری خلافت‘ یا ’مغربی خلافت‘ جیسی اصطلاحات استعمال نہیں کیں بلکہ ہر جگہ اپنی تہذیبی و علمی روایت سے برآمد شدہ اصطلاح ’جمہوریت‘ ہی متعارف کروائی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے اہل علم میں اتنی علمی جرات بھی نہیں کہ وہ مغرب کی نمائندہ اصطلاحات کو ردّ کرکے ان کی جگہ اسلامی تصورات کے فروغ پر ہی اِصرار کریں ؟ دور جدید کے چند معتزلہ جو دین کی تعبیر نو کا شوق رکھتے ہیں ، ان کی مرعوبیت کی حالت یہ ہے کہ اسلامی اصطلاح ’فقہ‘ کے بجائے ہر جگہ ’قانون‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں (مثلاً قانونِ عبادت، قانون معاشرت وغیرہ) حالانکہ لفظ قانون کو تصورِ فقہ کی جامعیت سے ویسی ہی نسبت ہے، جیسے کسی جزو کو کل سے ۔