کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 126
ہے۔ آپ نے تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے۔‘‘ عورتوں کی بیعت اور اس کاطریقہ کار: 1. سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مؤمن عورتیں جب ہجرت کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتی تھیں تو آپ قرآنِ مجید کی اس آیت ِمبارکہ کے مطابق ان سے اقرارلیتے تھے: ﴿یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ اِذَا جَآئَ کَ الْمُوْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ… الاية﴾ (الممتحنہ:۱۲) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:جس مؤمنہ عورت نے ان چیزوں کااقرار کرلیا،اس نے آزمائش (میں پورااُترنے)کااقرار (اور وعدہ) کرلیا جب عورتیں (ان سے بول کر )ان کااقرار کرلیتی تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُنہیں فرماتے: ’’جاؤ میں نے تم سے بیعت لے لی۔‘‘ واللّٰه ما مسّت ید رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ید امرأۃ قط غیر أنہ بایعہن بالکلام[1] ’’اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ کبھی کسی (اجنبی) عورت کے ہاتھ سے مس نہیں ہوا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زبانی طور پر ان سے بیعت لیتے تھے۔‘‘ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے صرف وہی عہد لیا جس کا اللہ نے حکم دیاتھا۔(سنن ابن ماجہ میں یہ الفاظ بھی ہیں ، آپ کی ہتھیلی کبھی کسی (غیر محرم) عورت کی ہتھیلی سے نہیں چھوئی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عورتوں سے عہدلیتے تو اُنہیں زبان سے فرماتے: ’’میں نے تم سے بیعت لے لی ہے۔‘‘ 2. سیدہ اُمیمہ بنت رُقیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں چند خواتین کے ساتھ بیعت کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے بیعت کی۔ آپ نے ہم (عورتوں )سے کہا: ’’جہاں تک تم سے ہوسکے اور جتنی تم طاقت رکھو‘‘ (تو اتنا ہی عمل کرو) ۔ اُمیمہ رضی اللہ عنہ نے (دل میں ) کہا: ’’اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہماری جانوں پر ہم سے زیادہ رحیم ہیں ۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم سے بیعت لیں (یعنی ہم سے مصافحہ فرمائیں )آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( إني لا أصافح النساء)) میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔اور میرا ایک سو عورتوں سے زبانی بیعت لینا اسی طرح ہے جیسے ایک عورت سے بیعت لینا۔ [2]
[1] چنانچہ مشہور امریکی مفکر جیفرسن (Jefferson) کہتا ہے : "We hold these truths to be self-evident, that all men are created equal; that they are endowed by their Creator with inherent and inalienable rights; that among these, are life, liberty, and the pursuit of happiness" [Declaration of Independence, Papers 1:315, emphasis added] ’’ہم ان حقائق اور اصولوں کو بدیہی (یعنی ہر دلیل سے ماورا) سمجھتے ہیں کہ تمام افراد پیدائشی طور پر مساوی ہیں ، نیز یہ کہ ان کے خالق نے اُنہیں چند ناقابل ردّ حقوق ودیعت کردیے ہیں جو یہ ہیں : زندگی، آزادی اور (اپنی خواہشات کے مطابق) حصولِ لذت کی جستجو۔‘ ‘