کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 123
الیمنیٰ علی السمع والطاعة فیما استطعتٍ[1] ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے اس ایک ہاتھ یعنی داہنے ہاتھ سے بیعت کی۔سننے اور اطاعت کرنے پر، جس قدر کہ استطاعت ہوگی۔ 11. سیدنا یونس بن رزین رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اور ان کے ساتھی حج کے ارادہ سے نکلے اور الربذہ مقام پر اُترے، اُن سے کہاگیا کہ یہ سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں ہم نے اُنہیں سلام کیا اور ان سے سوال کیا: فقال بایعت رسول اللّٰه ! بیدي ھٰذہ، وأخرج لنا کفًا کفًا ضخمة قال فقمنا إلیہ،فقبلنا کفیہ جمیعًاَ[2] ’’پس آپ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی اس ہاتھ سے اور اُنہوں نے ہمیں دکھانے کے لیے اپنی کشادہ، موٹی اور پرگوشت ہتھیلی نکالی پس ہم سب اس ہتھیلی کے لیے کھڑے ہوئے پھر ہم سب نے ان کی ہتھیلی کوچوما۔‘‘ سیدنا سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کا حدیبیہ کے موقع پر بیعت کا واقعہ مسنداحمد میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔[3] 12. حدثني أبو راشد الحبراني قال أخذ بیدي أبو أمامة الباھلي قال أخذ بیدي رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فقال لي: (( یا أبا أمامة! إن من المؤمنین من یلین لي قلبہ)) [4] ’’سیدنا ابوراشد حبرانی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑا اورکہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی میرا ہاتھ تھاما تھا اورفرمایا: اے ابوامامہ! ایمان والوں میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جن کادل میرے لیے نرم ہے۔‘‘ (یعنی آپ سے وہ محبت کرتے ہیں )
[1] حدیث شریف میں بیان ہوا کہ جب انسان گناہ کرتا ہے تو اس کے قلب پر ایک سیاہ دھبہ لگا دیا جاتا ہے، اگر وہ توبہ کرلے تو اسے مٹا دیا جاتا ہے اور اگر وہ گناہوں کی روش پر چلتا رہے تو آہستہ آہستہ انسان کا پورا قلب سیاہ ہوجاتا ہے یہاں تک کہ اس سے توبہ کی توفیق سلب کرلی جاتی ہے۔ معلوم ہوا کہ گناہ کرنے سے انسان اپنی فطرت (رجوع الیٰ اللہ) کو آلودہ کرتا ہے، نہ کہ اس کے تقاضے پورا کرتا ہے۔ اور یہ پہلے واضح کیا گیا کہ گناہ کا مطلب ارادۂ شرعیۂ خداوندی کی مخالفت کرنا ہے، ثابت ہوا کہ ارادۂ خداوندی کی مخالفت درحقیقت فطرتِ انسانی کی مخالفت ہے ۔