کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 122
علی یدہ فقال (( ھٰذا لعثمان)) [1]
’’سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ (ایک طویل حدیث میں ) بیان فرماتے ہیں :سیدناعثمان رضی اللہ عنہ (کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سفیربناکرمکہ روانہ فرمایاچنانچہ ان کے)مکہ چلے جانے کے بعد (اور ان کی شہادت کی افواہ کے بعد) بیعت رضوان ہوئی ۔پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے داہنے ہاتھ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ یہ میرا داہنا ہاتھ عثمان کا ہاتھ ہے پھر آپ نے اپنے داہنے ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارا اور فرمایاکہ یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سے بیعت لیا کرتے تھے تو اپنے دائیں ہاتھ کو پھیلا دیتے اور بیعت کرنے والا بھی اپنادایاں ہاتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں ہاتھ پررکھ کر مصافحہ کیا کرتاتھا۔ جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ جب اسلام پر بیعت کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول آپ اپنا دایاں ہاتھ بڑھائیں تاکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرلوں ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنادایاں ہاتھ بڑھایا…[2]
اَحادیث ِصحیحہ سے یہ بات واضح ہے کہ مصافحہ بیعت ہمیشہ دائیں ہاتھ ہی سے ہوتاتھا، اس طرح عام مصافحہ بھی دائیں ہاتھ ہی سے ثابت ہے۔
دائیں ہاتھ کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنادایاں ہاتھ کھانے، پینے اور پہننے میں استعمال کیا کرتے تھے اور بایاں ہاتھ اس کے علاوہ دوسرے کاموں (مثلاً استنجا وغیرہ میں استعمال کیا کرتے تھے۔[3]ایک حدیث میں ہے: ’’بائیں ہاتھ سے کسی سے کوئی چیز نہ لے اورنہ کسی کو بائیں ہاتھ سے کوئی چیزدے۔[4] اس وضاحت سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ مصافحہ بھی بائیں ہاتھ سے جائز نہیں بلکہ صرف دائیں ہاتھ سے مصافحہ جائز ہے، کیونکہ بائیں ہاتھ سے کوئی چیز پکڑنا ہی جائز نہیں تو ہاتھ کو پکڑنا کیسے جائز ہوگا؟ فافہم
10. سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : بایعت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم بیدي ھذہ یعني
[1] سرمایہ داری (آزادی، مساوات و ترقی کی اقدار پر مبنی معاشرتی و ریاستی تشکیل) کا جواز عموماً دو بنیادوں پر فراہم کیا جاتا ہے :
الف) یہ انسانی فطرت اور عقل کا تقاضا ہے (Capitalism is rational)، جیسا کہ لبرل مفکرین کا خیال ہے کہ جب بھی انسان کو آزاد چھوڑا جائے گا، وہ فطرتاً ایسا ہی نظام زندگی قائم کرے گا ۔
ب) یہ تاریخی عمل و جبر کا ایک لازمی نتیجہ وجزو ہے جس سے مفر ممکن نہیں (Capitalism is historical)، جیسا کہ اشتراکی مفکرین کا خیال ہے ۔
ہمارے نزدیک سرمایہ داری نہ تو عقلی و فطری شے ہے اور نہ تاریخی جبر و حقیقت، بلکہ یہ شر (evil) ہے یعنی سرمایہ داری کا غلبہ فطرتِ انسانی یا تاریخی جبر کا نہیں ، درحقیقت رذائل نفس (خصوصاً حرص و حسد) اور ان پر مبنی اِدارتی صف بندی کی عمومیت کا نتیجہ ہے ۔
[2] مغربی انفردایت یعنی ہیومن بینگ کا بنیادی ایمان و مقصد حصولِ آزادی یعنی اپنے ربّ سے بغاوت ہے اور اس کے بنیادی احساسات: شہوت و غضب اور اضطرار و یاسیت کی کیفیات ہیں ۔ مغربی مفکرین ان احساسات کو عین انسانی فطرت گردانتے ہیں ، مثلاً کیرکگا رڈ (Kirkegard) کے بقول آدم علیہ السلام جنت میں اپنی تنہائی کی وجہ سے اِضطرار کا شکار ہوئے اور پہلا گناہ کر بیٹھے، لہٰذا تنہائی اور اضطرار کا احساس مقدم اور دائمی ہے اور ان احساسات سے دنیاوی زندگی میں نجات ناممکن ہے۔ مشہور جرمن فلسفی ہائیڈیگر کہتا ہے کہ ’انسان اشیا کو پاتا ہے، اُنہیں تخلیق نہیں کرسکتا، وہ کائنات میں پھینک دیا جاتا ہے (we are thrown into the universe)، ہائیڈیگر Thrownessہی کو انسان کی فطری کیفیت کہتا ہے اور Throwness کی یہ کیفیت درحقیقت احساسِ تنہائی (کہ انسان اس دنیا میں اکیلا ہے) کے تصور سے پیدا ہوتی ہے ۔