کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 117
جائے۔[1] 6. السلام علیکم کہنے والے کو دس نیکیاں اور السلام علیکم ورحمة ﷲ کہنے والے کو بیس نیکیاں اور السلام علیکم ورحمة ﷲ وبرکاتہ کہنے والے کو تیس نیکیاں ملتی ہیں ۔[2]اور ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے السلام علیکم ورحمة اللّٰه وبرکاتہ ومغفرتہ کے الفاظ کہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے چالیس نیکیاں ملی ہیں ۔[3] 7. ایک جماعت اگر کسی شخص کے پاس سے گزرے تو ایک شخص کا سلام کہنا سب کی طرف سے کافی ہوجائے گا اور بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک شخص جواب دے تو وہ جوابِ سلام سب کی طرف سے کافی ہوجائے گا۔[4] البتہ بہت سے افراد بیک وقت بھی ایک آدمی کو سلام کرسکتے ہیں ۔[5] 8. اُنگلیوں کے ساتھ اشارہ کرکے سلام کہنا عیسائیوں کا سلام ہے اور ہتھیلیوں سے اشارہ کرنا یہودیوں کا سلام ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص ہمارے غیر کے ساتھ مشابہت کرتاہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔[6]البتہ ضرورت کے تحت ہاتھ سے اشارہ کیا جاسکتا ہے۔[7] نوٹ:آج کل اکثر مسلمان سلام کے وقت ’السلام علیکم‘ کہنے کے بجائے ہاتھ اُٹھا کر سلام کرتے ہیں ۔اس حدیث سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ یہ یہود و نصاریٰ کی سنت ہے اور یہود و نصاریٰ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ہماری فوج میں بھی سیلوٹ کا طریقہ رائج ہے لہٰذا اس طریقے سے اجتناب کرناچاہئے۔ ضروری ہے کہ ان غیر اسلامی چیزوں کو فوج سے بھی ختم کیا