کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 116
5. وہ شخص اللہ تعالیٰ کے قریب ہے کہ جو سلام کرنے میں پہل کرے۔ 6. سلام اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے جسے اللہ تعالیٰ نے زمین میں رکھ دیا ہے لہٰذا سلام کو آپس میں خوب عام کرناچاہئے۔ 7. سلام کرنے والا سلامتی میں رہے گا کیونکہ جب وہ دوسروں کی سلامتی چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بھی سلامتی میں رکھے گا نیز سلام کرنے والا تکبر سے بھی محفوظ رہے گا۔ 8. سلام کو عام کرنا مسلمانوں کی سربلندی کازینہ ہے۔ 9. سلام ایک ایسا عمل ہے جو جنت میں داخلہ کا ذریعہ بھی ہے۔ 10. سب سے بڑابخیل وہ ہے جو سلام میں بخل کرتا ہے۔ سلام کے احکام ومسائل احادیث میں سلام کے متعلق متعدد احکامات ثابت ہیں جن کا مختصرا ًیہاں ذکر کیاجاتا ہے: 1. اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو جب پیدا کیا تو اُنہیں حکم دیا کہ وہ فرشتوں کی جماعت کو سلام کہیں اور فرمایا کہ یہی آپ کا اور آپ کی اولاد کا سلام ہوگا۔ [1] 2. ایک حدیث میں ہے کہ سوار پیادہ کو ، پیادہ بیٹھے ہوئے کو اور کم تعداد والے زیادہ لوگوں کو سلام کیا کریں ۔[2] 3. چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور قلیل کثیر کو سلام کیاکریں ۔[3] 4. یہودی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آکر’’السّام علیکم‘‘ (یعنی تمہیں موت آئے) کہا کرتے تھے۔ چنانچہ ان کے اس طرزِ عمل پر اُنہیں یہ جواب دیا گیا کہ جب اہل کتاب سلام کریں توجواب میں اُنہیں وعلیکم کہا جائے۔[4] 5. کسی مجلس میں مسلمان، مشرکین، بت پرست اور یہودی مشترک ہوں تو اُنہیں سلام کہا
[1] دیکھئے رالز کی کتاب Theory of Justice [2] اسلامی حلقے اکثر امریکہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ امریکہ عراق و افغانستان وغیرہ میں ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی کررہا ہے جبکہ یہ الزام اُصولاً غلط ہے کیونکہ ہیومن رائٹس فریم ورک کے مطابق ایسے لوگ جو ہیومن ہونے کو نہیں مانتے یعنی جو Non-Humans ہیں ، اُنہیں قتل کرناکوئی جرم نہیں ۔ Human وہ ہے جو انسان کو قائم بالذات یعنی الصَّمد سمجھے اور جو حصولِ آزادی کو دیگر تمام مقاصد زندگی پر ترجیح دے۔ وہ لوگ جو نہ صرف یہ کہ لبرل آزادیوں کے منکر ہوں ، بلکہ ان کے خلاف عملاً بر سر پیکار ہوں (مثلاً طالبان) تو ان کا قتل عین جائز ہے کہ وہ ہیومن ہیں ہی نہیں ، ہیومن رائٹس تو ہیومن کے حقوق ہوتے ہیں ، نہ کہ عبد کے ۔