کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 114
اس کو سلام کا جواب دیتے ہیں تو اس کے لیے ان پر ایک درجہ فضیلت ہے کیونکہ اس نے ان کو سلام یاد کرایا ہے اور اگر وہ لوگ اس کے سلام کا جواب نہ دیں تو اسے وہ جواب دے گا جو ان سے بہتر ہے۔‘‘
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک سلام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے جسے اللہ تعالیٰ نے زمین میں رکھ دیا ہے۔پس تم سلام کوآپس میں (خوب) پھیلاؤ۔‘‘(الادب المفرد:ص۲۵۷)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث مختصر ہے اور اس کی سند صحیح ہے اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی شواہد کی وجہ سے ’حسن‘ ہے۔
6. عن البراء بن عازب، قال قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم (( أفشوا السلام تسلموا والأشرۃ شر)) [1]
’’سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’سلام کو پھیلاتے رہو تو تم سلامتی میں رہو گے اورتکبر اور حق کاانکار شر کا باعث ہے۔‘‘ یعنی تکبر و بطرکی وجہ سے سلام کا جواب نہ دینا شر کا سبب ہے۔بطر کامطلب ’حق کا انکار کرنا‘ ہے۔
7. عن أبي الدرداء قال:قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( افشوا السلام کي تعلوا)) [2]
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’سلام کو پھیلاؤ تاکہ تم سربلند ہوجاؤ۔‘‘
8. سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اِرشاد فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو لوگ فوراً آپ کی خدمت میں حاضر ہوگئے ، لوگوں نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ہیں ۔ لوگوں کیساتھ میں بھی آپ کی زیارت کے لیے گیا جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ اقدس کو توجہ سے دیکھاتومجھے یقین ہوگیا کہ آپ کا چہرہ کسی جھوٹے آدمی کا چہرہ نہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے جوکلام فرمایا وہ یہ تھا: