کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 113
کے جنازہ میں حاضر ہو، 3. جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کرے، 4. جب اس سے ملاقات ہو تو اسے سلام کرے، 5. جب اسے چھینک آئے (اور وہ الحمدﷲکہے) تو اسے یرحمک ﷲ (اللہ آپ پررحم فرمائے) کہہ کررحمت کی دعا دے اور 6. اس کی غیر حاضری یا موجودگی میں اس کی خیرخواہی کرے۔
3. عن عبداللّٰه بن عمرو أن رجلا سأل رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم أي الاسلام خیر؟ قال: (( تطعم الطعام وتقرأ السلام علی من عرفتَ ومن لم تَعرف)) [1]
’’سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاکہ کون سا اسلام بہتر ہے (یعنی اسلام میں خیروخوبی کی بات کون سی ہے؟) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو کھاناکھلانا اور ہر شخص کو سلام کرنا چاہے وہ واقف ہو یا ناواقف‘‘
4. عن أبي أمامة قال قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( إن أولیٰ الناس بااللّٰه تعالیٰ مَن بَدَأھم بالسلام)) [2]
’’لوگوں میں اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو اُنہیں سلام کہنے میں ابتداکرے۔‘‘
5. عن عبد اللّٰه یعني ابن مسعود عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم قال: (( السلام اسم من أسمآء اللّٰه تعالیٰ وضعہ في الارض فأفشوہ بینکم فإن الرجل المسلم إذا مرَّ بقوم فسلَّم علیھم فردوہ علیہ کان لہ علیہم فضل درجة بتذکیرہ إیاھم السلام فإن لم یردوا ردّ علیہ من ھو خیر منھم)) [3]
’’سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’سلام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے جسے اس نے زمین پررکھ دیا ہے۔ پس تم سلام کوآپس میں (خوب) پھیلاؤ کیونکہ مسلمان شخص جب کسی قوم پر گزرتاہے اور انہیں سلام کرتاہے اور وہ
[1] درحقیقت اس دنیا میں غیر جانبداریت (neutralism) بمعنی ’عدم رائے‘ (no position) کا کوئی وجود نہیں ، بلکہ غیر جانبداری کے دعویٰ کا اصل مطلب ہوتا ہے ’کسی اُصول کے مطابق رائے دینا یا فیصلہ کرنا‘۔ جو لوگ اس معنی میں غیر جانبداری کا دعوی کرتے ہیں گویا وہ تمام اُصولوں سے ماورا کہیں خلا میں معلق ہو کر اپنی رائے دے رہے ہیں ؛ فی الحقیقت وہ خوش فہمی کا شکار ہیں ، غیر جانبدار (neutral) ہونے کا دعوی کرنا محض فریب ہے، اس دنیا میں ایسا کوئی مقام نہیں جہاں پہنچ کر انسان غیر جانبدار ہوجائے۔ مثلاً یہ کہنا کہ ’فلاں مسئلے میں آپ مسلمان کے بجائے غیر جانبدار ہو کر غور کریں ، محض بے وقوفی ہے۔ کیا اسلا م سے باہر نکل کر انسان کافر ہوتا ہے یا غیر جانبدار ؟ کیا کفر بذاتِ خود ایک جانبدارانہ مقام نہیں ؟ ائمہ علم الکلام نے المنزلۃ بین المنزلتین کے عقیدے کی بیخ کنی اسی گمراہی سے اُمت کو بچانے کے لیے فرمائی۔ عبدیت سے باہر نکل کر انسانی عقل غیر جانبدار نہیں بلکہ خواہشات اور شیاطین کی غلام ہو جاتی ہے جیسا کہ ارشاد ہوا: ﴿ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَکَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ اَھْوَائَہُمْ وَمَنْ أضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ھَوَاہُ بِغَیْرِ ھُدًی مَِّن ﷲ﴾(القصص:۵۰) (پس اے رسول! اگر وہ آپ کے ارشاد کو قبول نہ کریں تو جان لو کہ وہ اپنی خواہشاتِ نفس کے پیرو کارہیں اور اس شخص سے بڑا گمراہ کون ہوگا جو خدائی ہدایت کے بجائے اپنی خواہشات کی پیروی کرے)۔ مزید فرمایا:﴿ وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعْ ھَوَاہُ﴾(الکہف:۲۸)(اس شخص کی اطاعت نہ کرجس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور جس نے اپنے خواہش نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے) ، نیز ﴿وَمَنْ یَعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہُ شَیْطَاناً فَہُوَ لَہٗ قَرِیْن﴾(الزخرف:۳۶) (جو کوئی رحمن کے ذکر سے منہ موڑتا ہے تو ہم ا س کے اوپر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں جو اسکا دوست بن جاتا ہے)
[2] اسی فکر سے متاثر ہو کر وحید الدین خاں اور ان کے فکری ہم نوا جاوید احمد غامدی افضلیت بین الانبیاء اور اسلام کی دوسرے مذاہب پر کاملیت کے اعتبارسے برتری وغیرہ کے اجماعی مسائل کے خلاف عوام الناس کے دلوں میں وسوسے پیدا کر تے چلے آ رہے ہیں ۔اس طرزِ فکر کے پیچھے کارفرما فلسفہ یہ ہے!