کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 112
حدیث و سنت ڈاکٹرابوجابر عبداللہ دامانوی سلام ومصافحہ ٭کے اَحکام و مسائل قرآنِ مجیداوراَحادیث صحیحہ کی روشنی میں سلام کے فضائل 1. عن أبي ہریرۃ قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم :(( لاتدخلون الجنة حتی تؤمنوا،ولا تؤمنوا حتی تحابوا،أو لا أدلُّکم علی شيء إذا فعلتموہ تحاببتم؟ اَفشوا السلام بینکم)) [1] ’’سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: ’’تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ اور تم ایمان نہیں لاسکتے جب تک کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو اور کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جسے اپنا کرتم ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو؟ وہ یہ ہے کہ تم آپس میں سلام کو عام کرو۔‘‘ یعنی ایک دوسرے کو خوب سلام کیا کرو۔ 2. عن أبي ہریرۃ قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( للمؤمن علی المؤمن ست خصال: یعودہ إذا مرض ویشھدہ إذا مات ویُجیبہ إذا دعاہ ویُسلِّم علیہ إذا لقِیَہ ویشمتہ إذا عطس وینصح لہ إذا غاب أو شھد)) [2] ’’سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک مؤمن کے دوسرے مؤمن پرچھ حقوق ہیں : 1. جب وہ بیمار ہو تو اس کی بیمارپُرسی کرے، 2. جب وہ فوت ہوجائے تو اس
[1] ہیومن یا سرمایہ دارانہ انفرادیت کیا چاہتی ہے؟ یہ کہ ’میں جو چاہنا چاہوں چاہ سکوں ‘ (preference for preference itself) نہ کہ کوئی مخصوص چاہت ، کیونکہ جونہی میں کسی مخصوص چاہت کو اپنی ذات کا محور و مقصد بناتا ہوں توآزادی ختم ہوجاتی ہے جسے ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری خوبصورت پیرائے میں یوں کہتے ہیں کہ"his self can possess ends but cannot be constituted by them" ۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ مغرب کے پاس خیر کا کوئی substantive(مثبت،منجمدیا حقیقی ) تصور سرے سے موجود ہی نہیں ، کیونکہ جس آزادی کو وہ خیر اعلیٰ گردانتے ہیں ، اس کا مافیہ یا مشمول کچھ نہیں بلکہ وہ عدمِ محض ہے۔ یہاں خیر ’کوئی مخصوص چاہت ‘ نہیں بلکہ ’کسی بھی چاہت کو اختیار کرسکنے کا حق‘ ہے۔ دوسرے لفظوں میں مغربی تصور خیر درحقیقت ِعدم خیر (absence of any good) ، یعنی ہر خیر کی نفی کا نام ہے اور یہ عدم خیر ہی ان کے خیال میں خیر اعلیٰ ہے۔ انہی معنی میں مغربی تصور خیر اصلاً شر محض (absolute evil)ہے،کیونکہ شر درحقیقت عدمِ خیر ہی کا نام ہے، اس کااپنا علیحدہ کوئی وجود نہیں ۔ یہ مقام ان مسلم مفکرین کے لئے لمحہ فکریہ ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ مغربی تہذیب کی اصل(Inner core) خیر پر مبنی ہے اور اس کے ظاہر میں کچھ برائیاں اس لئے در آئی ہیں کہ اس خیر کو برتنے میں انسانی کو تاہیاں ہو گئیں ۔ اسی طرح معاملہ یہ بھی نہیں کہ اسلام کا ایک تصورِ خیر ہے اور مغرب کے پاس کوئی دوسرا، بلکہ مغربی تہذیب میں کسی ’بلند اور راست‘ مقصد کا وجود ہی سرے سے نا ممکن ہے کیونکہ جس شے کو وہ خیر سمجھتے ہیں ، وہی اصل شر ہے۔ جسے وہ عدل سمجھتے ہیں ، وہی اصلاً ظلم ہے اور اسی لئے نامور مغربی مفکر اور نومسلم مترجم قرآن مارماڈیوک پکتھال فرمایا کرتے تھے کہ مغربی تہذیب در حقیقت تہذیب نہیں ’بربریت‘ (savegery) یعنی تہذیب کی ضد ہے، کیونکہ اصلاً تو تہذیب صرف اسلام ہی ہے ۔