کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 111
کے کس کس پہلو سے فائدہ اُٹھایا اور مختصر عرصے میں ایک عظیم قوم کو کس طرح مسخ کردیا، کبھی یہ مطالعہ بھی ہماری لئے موضوعِ عبرت بننا چاہئے۔ ان کی چیرہ دستیاں اس حد تک بڑھیں کہ آخر کار مسلم اُمہ کے مرکز ِخلافت کو بھی تبادہ وبرباد کرڈالا۔ نظریات مسخ کردیے، سوچیں اور رجحانات بدل دیے، اسلام کا صرف نام باقی رہا اور مسلمانی نام کو رہ گئی!!
یہ قضیہ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آخر دورِ زوال کیوں کر طاری ہوا، اس سے قبل اس قدر پرشکوہ اُمت کے کارپردان نے کونسی ایسی کوتاہیاں کی تھیں کہ اس قدر عبرتناک انجام ان کا مقدر ٹھہرا؟ لیکن حال کے چند سالوں کا بنظر غائر مشاہدہ کرکے یہ قضیہ بآسانی حل ہوگیا۔ جب کسی قوم کے حکمران ہی اپنی قوم سے مخلص نہ رہیں ، اپنی چند لمحوں کی عیاشی اور عافیت کے بدلے اپنی قوم کو سالوں کی غلامی میں دینے پر اُنہیں کوئی شرمندگی نہ ہو، زوال کے بدترین لمحات میں بھی وہ قوم خوابِ غفلت سے نہ جاگے اور مقابلہ کرنے کی حکمت ِعملی ترتیب نہ دے، محض وقتی نعرہ بازی پر اکتفا کرے تو ا س قوم کا انجام ا س کے سوا کیا ہوسکتا ہے؟!
مقامِ افسوس ہے کہ آج اکیسویں صدی کے آغاز میں اُمت ِمسلمہ اقوامِ عالم میں اپنا تعارف اس بدتر شناخت سے پیش کررہی ہے۔ دین اسلام کی نظریاتی اور عملی قوت آج بھی ہر ذی شعور کو حیران کردیتی ہے اور اسی قوت کے سبب دنیا میں اسلام سب سے زیادہ پھیلنے والا مذہب ٹھہرتا ہے لیکن اسلام کے نام لیواؤوں کا رویہ اور کردار، بالخصوص اجتماعی اور ملی رجحانات اُمت ِمحمدیہ کے روشن چہرے کو داغ دار کرنے کے لئے کافی ہیں ۔ آج کی اُمت ِمسلمہ کے حکمران اور عوام ورعایا کو دیکھ کر اپنی قوم کے ہونے والے زوال کی وجوہات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہیں ۔
ہم اب بھی خوابِ غفلت سے نہ جاگے تو زوال کا یہ سیاہ دور طویل تر ہوتا جائے گا۔ ہمیں ہر سطح پر بیداری کی ضرورت ہے۔ زندگی کے ہرمیدان میں کام کرنیوالے عناصر کی حوصلہ افزائی اور ان کو تائید و تقویت دے کر اپنا قومی مزاج بدلنا ہوگا۔ خوشامدیوں ، موقع و مفاد پرستوں ، بدمحنتوں اور غفلت کیشوں کو پیچھے ہٹا کر اُمت ِمحمدیہ کی قیادت کیلئے باشعور اور باعمل مسلمانوں کو آگے بڑھانا ہوگا۔ تب ہی ہماری قوم کا کلچربدلے گا، اور غیروں کے ظلم وتشدد سے ہمیں عافیت نصیب ہوگی۔ اس کیلئے سب سے پہلے احساس اور شعور کی ضرورت ہے، اس شعور کے نتیجے میں ہی قوتِ عمل کی تحریک پیداہوگی، تب آخرکار کامیابی مسلم اُمہ کا مقدر ٹھہرے گی۔ اِن شاء اللہ (ڈاکٹر حسن مدنی)