کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 110
جارہے ہیں ۔یہ سوچنا کہ دنیا کی مختلف قومیں دوستانہ بنیادوں پر اپنے تعلقات کو آگے بڑھاتی رہیں گی، بالخصوص اس وقت جب کہ وہ نظریاتی میدان میں ایک دوسرے کی بدترین حریف ہوں ، ان کی تاریخ باہمی تصادم سے بھری پڑی ہو؛ معصومیت اور بھولپن کی انتہا ہے۔ قومیں تو کجا قرآن کی رو سے دوانسان ایک دوسرے کے مفادات پر ہاتھ صاف کرتے نہیں چوکتے، کیونکہ ہر کسی کو دوسرے کے فوائد ونعم سے لطف اندوز ہونا اچھا لگتا ہے، نتیجتاً بغاوت و سرکشی قوی عنصر کو دعوتِ طغیان دیتی ہے۔ آج کی مہذب دنیا میں یہ استحصال ’ڈپلومیسی‘ کی خوبصورت اصطلاحات میں معطر کرکے ، اِمداد کے بلوں کے نام پر پیش کیا جاتاہے۔ خوب یاد رہنا چاہے کہ غیراقوام کو کبھی کسی قوم پر ایسا غلبہ حاصل نہیں ہوتا کہ وہ اس میں ایک طویل مدت تک دخل اندازی کرتی رہیں ۔ یہ فرصت اور گنجائش اس کو مقابل قوم کی داخلی کمزوری اوراُن میں مفاد پرست وخود غرض عناصر کی موجودگی مہیا کرتی ہے۔ اس لئے کسی قوم کی قوت قابل فکر نہیں ہوتی؛ مقابل قوم کی نادانی، منافقت اور غفلت قابل مذمت ہے!! آج ترقی کے بہت سے فلسفے اور تقاضے پیش کئے جاتے ہیں ، جدید تعلیم اور ٹیکنالوجی کی مہارت کو اس کا لازمہ قرار دیا جاتا ہے، بہت سے لوگ اہلِ مغرب کی نقالی کو ہی ترقی کی معراج سمجھتے ہیں ۔ لیکن یہ سب باتیں ثانوی ہیں ؛ ترقی کی اہم بنیادیں : احساس، شعور، جدوجہد اور پرعزم کاوش ہے۔ یہ رجحانات دنیا کی جس قوم میں پیدا ہوجائیں اور وہ علم دوستی، عدل، قانون پسندی، محنت اور اہل ہنر سے انصاف کا وطیرہ اختیار کرلے، وہ ترقی کے ایک معیار کو ضرور حاصل کرلیتی ہے۔یہ خصوصیات پتھر اور سانپ کو دیوتا مان لینے والی ہندو قوم میں بھی پیدا ہوجائیں تو ان کا جہالت سے بھرپور اعتقاد ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ ترقی اور کامیابی کی یہ مسلمہ اَساسات ہیں جو ایک حد تک کامیابی کی ضمانت ہیں ، البتہ دائمی، قوی تر، متوازن اورحقیقی کامیابی وکامرانی صرف اُس کے حصے میں آتی ہے جو اللہ کی طرف سے آنے والی مستند ہدایات(اسلام) پر عمل پیرا ہو۔ اُمت ِمسلمہ پر زوال آیا اور ایک صدی قبل تمام مسلم ریاستیں غیروں کی دست ِنگر اور محکوم بن گئیں ، اسی ریاستی تسلط سے غیروں نے ہم سے ہمارا اسلامی جوہر اور بیش قیمت تہذیبی روایات چھین لیں اور ہمیں اپنی جیسی مادہ پرست قوم ومعاشرہ میں بدل دیا۔ مغربی اَقوام نے ریاستی تسلط