کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 109
سستی وغفلت کی یہ صدا دوسروں کو ہنسنے کا موقع تو دیتی ہے، لیکن ان پر رحم کا کوئی شائبہ بھی قریب نہیں پھٹکنے نہیں دیتی، بالخصوص جب کہ غفلت کی چادر تان لینے والے دن رات مال ودولت کی عیاشیوں میں تو مگن ہوں ، اپنے ذاتی مفادات اور خودغرضیوں کے لئے ہر صلاحیت ان کے پاس موجود ہو، لیکن اجتماعی اور ملی مفاد کے لئے مخلصانہ بنیادوں پر کچھ سوچنے اورکرنے سے وہ عاری ہوں ۔ دورِحاضر کا اہم ترین مسئلہ دنیا کی طاقتور اقوام کا کمزورممالک پر ظلم وستم ہے جو صرف عسکری جارحیت میں ہی نہیں بلکہ معاشی استحصال کے نت نئے طریقوں میں بھی ظاہر ہوتا رہتا ہے۔ یہ معاملہ اس وقت سنگین تر ہوجاتاہے جب ظالم اقوام، دشمنی اور غیریت کی بجائے اپنائیت اور دوستی کا لبادہ اوڑھ کر آئیں ۔ جب وہ اپنے آپ کو دشمن کی بجائے انسانیت کا خیرخواہ اور اخلاق وکردارکی اعلیٰ اقدارکے حامل ہونے کا دعویٰ کریں لیکن عملاً ان کا رویہ ، ظلم وستم اور جبر و قہر میں قرونِ وسطیٰ کے خون آشام جنگجوؤں سے قطعاً مختلف نہ ہو۔ آج پاکستان اسی استعماری جارحیت کا سامنا کررہا ہے اور جوں جوں اپنے دوست اور ہمدردوں کی مخلصانہ ہدایات پر عمل کرتا جارہا ہے، توں توں اپنے تباہی کو دعوت دے رہا ہے۔ ہمارے گذشتہ نو سال کے روز وشب اس پر شاہد ِعدلہیں ۔ لیکن اصل مسئلہ دشمن کا ظلم وستم نہیں ، دنیا کی بعض اقوام کا انتہائی طاقتور اور منظم ہوجانا نہیں ، اصل مسئلہ دنیا کی مظلوم اَقوام کا غافل اور بے پروا ہوجانا اور اپنی قومی مفادات کا تعین کرکے اس کے لئے محنت نہ کرناہے۔ دنیا کو اس وقت امریکہ یا مغرب کی قوت سے خطرہ نہیں ہے بلکہ غافلوں کی غفلت او رنادانوں کی معصومیت ومدہوشی فکر مندی کا باعث ہے! کیری لوگر بل اور اس کے بعد سے جاری سیاسی کشمکش اور بیان بازی اس تاثر کو تقویت دیتی ہے کہ پاکستان بدترین جارحیت کا شکار ملک ہونے کے باوجود اپنی ترقی اور استحکام کے لئے تاحال سنجیدہ غوروفکر اور پرعزم کدوکاوش پر آمادہ نہیں ہے۔ جب کوئی قوم اپنے اہداف کا تعین کرکے ایک لائحۂ عمل تشکیل دے لیتی ہے تو اس کے بعد سفارتی لابنگ، سیاسی کوششوں یا جوابی اقدامات کی باری آتی ہے۔ لیکن پاکستانی اربابِ اقتدار، جن کا رویہ اسلامی اُمہ کے مرکزی رویہ کا غماز ہے، بدعملی کی روش پر گامزن ہیں ۔ مقابل میں مکار ریاستیں اپنے اَہداف کو اب تو کھلے بندوں بیان کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتیں ۔ اور ہم لگاتار اپنے آپ کو اور اپنے عوام کو دھوکہ دیے
[1] ہیومن رائٹس کی اسلامی تعبیر کے امکانات کی حمایت کرنے والے مسلم مفکرین اس بات کو بنیاد بناتے ہیں کہ مختلف ممالک میں ہیومن رائٹس کی تشریحات میں اختلاف پایا جاتا ہے (مثلاً ہیومن رائٹس پر مبنی بعض دستوری جمہوری ریاستوں میں جنسی تعلقات کی بہت سی صورتوں وغیرہ کی اجازت نہیں دی جاتی) جس سے ثابت ہوا کہ ہیومن رائٹس کی قرآنی تعبیر پیش کرنا ممکن ہے۔ البتہ یہ دلیل بالکل غلط ہے، اس میں شک نہیں کہ ابتداء ًہر ملک اور قوم اپنے تئیں ہیومن رائٹس کو اپنے مذہبی، روایتی و ثقافتی خیر کے فریم ورک کے ساتھ ہم آہنگ کرکے اپنانے کی کوشش ہی کرتی ہے مگر جیسا کہ واضح کیا گیا کہ ہیومن رائٹس ’فرد کے حق کی خیر پر فوقیت ‘ کی حفاظت کرتی ہے لہٰذا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ روایتی جکڑ بندیاں بے معنی ہو کر تحلیل ہوتی چلی جاتی ہیں ۔ مثلاً ساٹھ کی دہائی میں امریکہ کے سرکاری ٹی وی چینل اور موجودہ پاکستان کے پی ٹی وی کی ثقافتی حکمت ِعملی میں کوئی خاص فرق نہ تھا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ وہ عریانی و فحاشی کی بلندیوں کو چھونے لگا۔ درحقیقت ہیومن رائٹس فریم ورک کے اندر فرد کے پاس ہمیشہ یہ موقع موجود رہتا ہے کہ وہ خیر کی کسی مخصوص مروّجہ تعبیر اور زندگی گزارنے کے کسی مخصوص طریقے کے خلاف بغاوت کرکے اپنے اظہارِ آزادی کے حق کو استعمال کرلے اور ہیومن رائٹس پر مبنی ریاست بالآخر اس کے اس قانونی حق کو ماننے پر مجبور ہوجاتی ہے ۔