کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 108
نہیں ہوتا۔ پھر توڑ پھوڑ اور جارحیت وتشدد کئے بغیر ہماری حکومتیں عوامی رائے کی طرف متوجہ نہیں ہوتیں لیکن اس سے مسلمانوں کی اَملاک کے نقصان اور اقوامِ عالم میں مسلمانوں کے متشدد قوم ہونے کا تاثر اُبھرتا ہے۔ اگر ہمارے حکمران عالمی سطح پر احتجاج کرنے پر آمادہ بھی ہو جائیں تو اس کی کوئی تاثیر نظر نہیں آتی بلکہ ملت کوایک مقابل اِبلاغی جنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آج سے دوبرس قبل رونما ہونے والے اس سانحہ کے موقع پر بعض اہل دانش کی یہ را ئے پڑھنے کو ملی کہ ہمارا جو بھی احتجاج اور رویہ ہو، ہر ایک کا نتیجہ ملت ِاسلامیہ کے اُلٹ اور خلاف ہی پڑتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب اپنے مختلف شعبہ ہائے حیات کی ترقی کے بعد زندگی کے مختلف میدانوں میں اس حد تک آگے نکل چکا ہے کہ ہمارے ہر قسم کے ردّ عمل کو اپنا مفہوم دینے کی قدرت اس کے پاس موجود ہے کیونکہ ہماری زبان واِظہار اسی کے پاس اور ہماری سیاست ومعیشت کے مراکز بھی اسی سے تقویت پکڑتے ہیں ۔ ایسی صورتحال میں وقتی ردعمل پر مبنی کوئی مؤثر حل پیش کرنے کی بجائے ضرورت اس امر کی ہے کہ احیائے ملی اور اُمہ کے تشخص کے تحفظ کے لئے طویل المیعاد لائحۂ عمل تشکیل دیا جائے۔ اپنے مفادات کا تعین کرکے ان کے حصول کی طرف پیش قدمی کی جائے او راس کے لئے دیگر ممالک میں ایک مقابل گروپ بندی کرکے مظلوموں کو منظم کیا جائے۔ دنیا میں جاری المیوں کا اس وقت یہی حل ہے ! ملت ِاسلامیہ اس وقت دنیا کے مرکزی علاقوں پر حکمران ہے۔ دنیا کا ہرچوتھا شخص مسلمان ہے اوراسلام دنیا کا سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔ مسلم اُمہ معدنی اور انسانی وسائل سے مالا مال ہے لیکن اپنے مفادات اور تحفظ کے شعور سے عاری ہے۔ محض اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا وقتی واویلا اوراس کے بعد لمبی خاموشی۔ ملت کا ایک مرکزی ادارہ او آئی سی بدعملی، سستی، اور مؤثر کردار سے عاری تنظیم کی علامت بن چکا ہے۔ زوال کی تین صدیاں گزارنے کے بعد بھی آج اس کے رکن حکمران بے تحاشا مالی وسائل ہونے کے باوجود بے غیرتی وبے حمیتی کا نشان بن کر لمبی تان سو رہے ہیں ۔ پھر یہ شکوہ کرتے ہیں کہ ہم پر دنیا کی متحرک اَقوام نے تسلط جما لیا اور ہماری معیشت ان کے ہاں محصور ہوگئی اور ہماری پالیسیاں ان کے پاس بنتی ہیں ۔ یہ شکوہ ہر اس قوم کو کرنا پڑتا ہے جو خود قوتِ عمل سے تہی دامن ہو!!