کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 107
استعمار کے نام پر تیسری دنیا کے ممالک کو ان کا نشانہ اور شکار بنا دیا گیا ہے۔ آج کے عالمی ذرائع ابلاغ کا موضوع ان کے اپنے ممالک ہونے کی بجائے اکثر مسلم دنیا کے ایسے خطے ہیں جو اُن کے لئے تزویراتی اعتبار سے انتہائی اہم ہیں ۔ آج جنگ وجدل کے ساتھ ساتھ دہشت گردی اور بدامنی اِنہی مسلم خطوں کا مقدر بنی ہوئی ہے۔ ماضی کے سامراجیوں نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے اپنے باہمی اختلافات کو عوامی دلچسپی کا موضوع بنانے سے روکنے کی ہرممکن تدبیر اور اپنے معاملات کو خاموش کمروں میں طے کرنے کی پھرپورسعی کی۔ طاقتور قوموں کے آپس میں لڑنے کا جہاں یہ نقصان تھا کہ کامیابی کے لئے زیادہ قوت صرف ہوتی تھی، وہاں ہردو کے منظم ہونے کے سبب مفادات بھی کم اور محدود حاصل ہوتے ہیں جبکہ اپنا رخ کمزور ممالک کی طرف کرلینے سے جہاں کامیابی وکامرانی آسانی سے ان کے قدم چومتی، وہاں نتائج وفوائد بھی لامحدود ہوتے، کیوں کہ غیرترقی یافتہ اور غیر منظم قوم کو اپنے وسائل ومسائل کا سرے سے شعور واِدراک ہی حاصل نہیں ۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے ملت ِاسلامیہ کفار کے حملوں کا نشانہ ہے۔ خلیج کی جنگ سے لے کر افغان و عراق جنگ اور حالیہ مزعومہ دہشت گردی کے خلاف ایک منظم جنگ بندی جس کی نیٹو اور عالمی اتحاد قیادت کررہا ہے، مسلمانوں کا مقدر بنی ہوئی ہے۔ ملت ِاسلامیہ کے نمایاں ممالک دو عشروں سے جن مسائل کا شکار ہیں ، ا ن کو مادّی جنگ بھی کہا جاسکتا ہے اور نظریاتی بھی، لیکن دونوں نوعیتوں سے کوئی غیر معمولی فرق واقع نہیں ہوتا، اس لئے کہ مادی و علاقائی اور معدنی واِفرادی وسائل پر ملت ِاسلامیہ جو حصہ رکھتی ہے، اس کا تقاضا بھی اس سے کوئی زیادہ مختلف نہیں ۔
آج ہم ان ہمہ جہت مسائل سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں پاتے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ سالوں کی منظم منصوبہ بندی کے ساتھ ہماری مخالف اقوام نے اپنے ہمہ جہتی ادارے اس قدر مضبو ط کرلیے ہیں کہ ہر میدان میں ناکامی ہمارا مقدر ٹھہرتی ہے۔ اگر مسلم اُمہ پر کوئی ظلم ہو، مثلاً توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر مبنی کارٹونوں کی اشاعت کا مسئلہ وغیرہ تو اس پر اُمت ِمسلمہ جو بھی رد عمل کرے، اس کا فوری اور خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا۔ اگر اس ظلم کو گوارا کیا جائے تو یہ ایک سنگین بے غیرتی اور ملی بے حمیتی کے مترادف ٹھہرتا ہے اور اگر احتجاج کیا جائے تو ہماری مسلم حکومتوں پر کوئی اثر
[1] مضمون کے اس حصے کی تیاری کے لئے راقم الحروف ڈاکٹر عبد الوہاب سوری اور مولانا محبوب الحسن کی رہنمائی کا شکر گزار ہے ۔
ذاتی زندگی صرف اور صرف فرد سے متعلق ہے۔ اگر اس زندگی کا تعلق بیٹے، بیوی، بہن، باپ سے ہو تو یہ زندگی ذاتی نہیں رہے گی بلکہ اجتماعی زندگی (Public Life)کہلائے گی۔ اس دائرہ کار کے شروع ہوتے ہی فرد کی آزادی ختم ہوجائے گی اور ہیومن رائٹس کے قانون کا اطلاق شروع ہوجائے گا جس کے مطابق وہ اپنے بچوں اور بیوی کے معاملات میں بھی کسی قسم کی مداخلت کا حق نہیں رکھتا ۔ اسی لیے مغرب میں اگر باپ بچے کو ڈانٹ دے یا باہر جانے کی اجازت نہ دے تو بچہ پولیس کو طلب کرلیتا ہے کہ باپ میری ذاتی زندگی میں مداخلت کر رہا ہے اور بیویاں ہر سال عدالتوں سے شوہر کے خراٹوں پر طلاق لیتی ہیں کہ شوہر کے خراٹوں سے ان کی پرسکون نیند کی آزادی مجروح ہوئی ہے۔ دوسرے لفظوں میں سیکولرازم میں ذاتی زندگی صرف "I"(میں ) تک محدود ہے، اس کے سوا تمام زندگی اجتماعی یعنی پبلک لائف ہے۔ اس میں ریاست کے قوانین کے سوا کسی کو مداخلت کا حق نہیں ، ایسی مداخلت بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے اوراسی کا نام بنیادی حقوق ہے جس کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ جمہوری ریاست درحقیقت جس قانون کو بالاتر تسلیم کرتی ہیں وہ یہی ہیومن رائٹس ہی ہیں ، نیز اس کا مقصد ِوجود ہی ہرفرد کو اپنی اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گزارنے کے مساوی مواقع فراہم کرنا ہوتا ہے ۔