کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 106
جنگوں کی وجہ سے کمزور ہوجانے کے بعد واپس لوٹنا ہی تھا، لیکن جاتے ہوئے بھی اُنہوں نے اقتدار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دیا جو ان کے طرزِ فکر میں رنگے اور مستقبل میں ان کے مفادات کے محافظ ہوسکتے تھے۔ مزید یہ کہ سامراجی ان متروکہ ممالک پر ایسا ڈھانچہ مسلط کرکے گئے جن سے ان کے تحکم وتسلط کا تسلسل برقرار رَہے۔ برائے نام آزادی حاصل کرنے والے ممالک میں مقتدر طبقوں کو پھر بھی ہوش نہ آئی اور اُنہوں نے مغرب کی کمزوری کے اس دورمیں اپنے آپ کو مستحکم کرنے کے بجائے مفاد پرستی اور داخلی اختلافات میں اس سنہرے موقع کو ضائع کیا۔ دنیا بھر میں مسلم عوام چیختے چلاتے رہے، اور اپنی حکومتوں کو راست اقدامات کی تلقین کے لئے احتجاج او ردباؤ کا ہر طریقہ اُنہوں نے اختیار کیا، لیکن بالخصوص اُمت ِمسلمہ میں کہیں بھی ترقی واحیا کی کوئی تحریک طبقہ اقتدار کی قوت و تائید حاصل نہ کرسکی!!
مغرب کا یہ اختلاف دوسری جنگ ِعظیم کے بعد چالیس برس تک آپس میں شدید نظریاتی اور سرد جنگ کی کیفیت سے دوچار رہا، جس دوران اہل مغرب اور ملت ِکفر ہی باہم برسرپیکار رہے، لیکن اس موقع سے مجموعی طورپر ملت ِاسلامیہ نے کوئی فائدہ نہ اُٹھایا اور اس دوران ملی بنیادوں پر اپنے آپ کو منظم اور مستحکم کرنے پر کوئی توجہ دینے کی بجائے غیروں کی کاسہ لیسی میں ہی اپنا وقت صرف کیا۔ بعد میں مغرب نے اسلام کے جذبہ جہاد سے ہی فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے ایک فریق کو زیر کیا۔ اس وقت بھی اگر ہم ملی بنیادوں پر سوچتے تو ہمیں یہ فکر ہوتی کہ دنیا میں دو کفریہ طاقتوں کا جو فطری توازن بنا ہوا ہے، اس کو طول دینے سے ہم بطورِ ملت کیا فائدے اُٹھا سکتے ہیں لیکن جس قوم میں اپنی قومیت اور مرکز ِ ملت کا شعور ہی ختم ہوچکا ہو، اس کے بعد ان مفادات کے تحفظ کا سوال ہی لایعنی بن جاتا ہے!!
آج بھی اہل مغرب کی بیسیوں تنظیمیں ہیں جو اپنی تہذیب، تجارت، معیشت اور نظریات کے فروغ کے لئے دن رات متحرک رہتی ہیں ۔ جی ۸ ہو یا جی ۲۰، ورلڈ بنک ہو یاآئی ایم ایف، تجارت وصنعت کی عالمی انجمنیں ہوں یا تہذیب وثقافت کے فروغ کی عالمی کانفرنسیں اور ان سب پر مستزاد عالمی میڈیا اور اقوامِ متحدہ، یہ تمام ادارے اپنا ایجنڈا محکوم اقوام بالخصوص ملت ِاسلامیہ پر مسلط کرنے کے لئے ہر لمحہ قانون سازی اور نظام بند ی کے نام پر نت نئی چالبازیاں تراشنے میں صرف کرتے ہیں ۔ ان سازشوں کا نتیجہ اور اقوام متحدہ کی نصف صدی پر محیط کارکردگی کا حاصل یہ ہے کہ وہ جنگیں جو کبھی طاقتور اَقوام آپس میں لڑتی تھیں ، اب معاشی یا سفارتی