کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 225
سوالیہ نشان ہے، کیونکہ یہودیوں کے ہاتھوں یرغمال ایک ایسے امریکی معاشرے میں جہاں یہودیوں کی معاشی اور اخلاقی مدد کے بغیر کوئی شخص کسی ریاست کا گورنر نہیں بن سکتا، کسی مڈل کلاس شخص کا امریکی صدارتی عہدہ پر بغیر کسی مضبوط سیاسی ساکھ کے پہنچ جانا اکثر سیاسی اُمور کے ماہرین کی رائے میں انتہائی قابل اعتراض، پراسرار اور خود امریکہ کے لئے خطرناک ہے۔
پس مندرجہ بالا تمام شواہد کی روشنی میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کے خلاف ہندو یہودی اور عیسائی صیہونی اتحاد قائم ہو چکا ہے اور اس کی علامت باراک اوباما کی شکل میں ظاہر ہو چکی ہے۔ اس منصوبے کے تین ہدف ہیں :
اوّلاً: پاکستان کو معاشی، سیاسی اور معاشرتی عدمِ استحکام سے دو چار کر کے عسکری اور نظریاتی طور پر ختم کرنا۔
ثانیاً: جمی کارٹر کے 1973ء کے جینو سائیڈ منصوبہ کے مطابق تیسری دنیا کے غریب ممالک کو جعلی معاشی بحران کے ذریعہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا غلام بنانا، غذائی اجناس کی طلب و رسد میں نقلی تفاوت پیدا کر کے غربت و افلاس کے بہانے قحط پیدا کر کے آبادی کو کم کرنا، عالمی سیاسی بساط پر اپنے نمائندوں کے ذریعہ جھوٹ اور فریب کاری سے عالمی جنگیں برپا کر کے امیر ممالک کی معیشت کو مفلوج کرنا جیسا کہ عراق اور افغانستان میں امریکہ کے ساتھ کیا گیا۔
اور ثالثاً: مسلمانوں کے مقدس مقامات مکہ اور مدینہ پر حملہ کر کے مسلمانوں کی مرکزیت کو ختم کرنا اور یہ تیسرا کام ایک ایسا شخص ہی کر سکتا ہے کہ ایک جانب جس کا سینہ اسلام کی نفرت سے جل رہا ہو اور دوسری جانب نا تجربہ کاری کے باعث وہ سیاسی بصیرت سے محروم ہو تاکہ اپنے کسی غلط اقدام کے نتائج و عواقب کا قبل از وقت ادراک کرنے سے قاصر ہو۔ تیسری جانب امریکی معاشرے کے ایک ایسے طبقہ سے تعلق رکھتا ہو کہ جس کے لئے امریکی معاشرے اور میڈیا میں ہمدردی موجود نہ ہو تاکہ مطلوبہ مقاصد کی تکمیل ہونے کے بعد امریکی میڈیا کی شدید تنقید کے نتیجہ میں اسے بآسانی منظر سے ہٹایا جا سکے۔ پس یہی اسباب ہیں کہ یہودی لابی نے باراک اوباما کو ایک ناتجربہ کار، سیاہ فام اور مسلمان باپ کی اولاد ہونے کے باوجود امریکہ کی صدارت کے لئے منتخب کیا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں اور ہمارے حکمرانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار ہونے اور اس عالمی سازش سے نمٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!