کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 224
رکھتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے تقریباً تمام ہی صدور ما سوائے ابراہم لنکن اور جان ایف کینڈی کے، اسرائیل نواز رہے ہیں مگر موجودہ صدر باراک اوباما کے بارے میں متعدد ویب سائٹس پر یہ بات موجود ہے کہ باراک اوباما کھلم کھلا فری میسن صیہونی، ایلمینٹی عیسائی ہے، اس کی تصدیق باراک اوباما کے صدر منتخب ہونے کے بعد کئے جانے والے ابتدائی اقدامات سے بھی ہوتی ہے۔ اس ضمن میں پہلی خبر یہ ہے کہ باراک اوباما نے چیف آف آرمی اسٹاف کے لئے ایک صیہونی یہودی ایمانویل کو منتخب کیا ہے اور اپنا مشیر خاص بھی ایک یہودی کو منتخب کیا ہے جبکہ ایشیا سے متعلق معاملات کی دیکھ بھال کے لئے مسلمان دشمن اور اقلیتوں کے قتل میں ملوث انتہا پسند ہندو جماعت وشوا ہندو پریشد کی سابقہ نیشنل کو آرڈی نیٹرر خاتون سونل شا، کو اپنا مشیر مقرر کر دیا ہے۔ سونل شا کے ادارے انڈی کاراپس کا بانی گجرات کے وزیر اعلیٰ اور لاکھوں مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کا قریبی دوست ہے۔ انڈی کارپس کی پارٹنر شپ ایکال ودیا لاس کے ساتھ ہے جو وشوا ہندو پریشد کا حمایت یافتہ ہے اور سکولوں میں ہندو طلبہ کو غیر ہندوؤں سے نفرت کی تعلیم دیتا ہے۔ مزید برآں اسی ایکال ودیا لاس نے بھارتی ریاست مدھیہ پردیش اور اڑیسہ میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف فسادات کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مزید برآں نئے امریکی صدر باراک اوباما کی اخلاقی ساکھ بھی خود ان کے اپنے معاشرے میں انتہائی مشکوک اور متنازع فیہ ہے۔ متعدد ویب سائٹس کے الزامات کے مطابق باراک اوباما ایک ہم جنس پرست اور کوکین کے نشہ کے عادی انسان ہیں جس کے ثبوت ان کی صدارتی مہم کے دوران بھی انٹر نیٹ پر فراہم کئے گئے ہیں، مگر باراک اوباما نے کبھی اس قسم کے الزامات کی تردید کرنے یاان الزامات لگانے والے افراد کے خلاف کسی قسم کی قانونی چارہ جوئی کی ضرورت محسوس نہیں فرمائی۔ حتیٰ کہ وہ امریکی میڈیا جس نے سابق امریکی صدر کلنٹن کے ایک جنسی اسکینڈل پر ساری دنیا میں ایک ہنگامہ برپا کر دیا تھا، باراک اوباما کے ان سکینڈلز پر پر اسرار طور پر خاموش ہے۔ علاوہ ازیں باراک اوباما کا سیاسی میدان میں ناتجربہ کار ہونا بھی ان کی سیاسی ساکھ پر ایک