کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 223
مَطَرِهَا وَيَأْمُرُ الأَرْضَ فَتَحْبِسُ ثُلُثَىْ نَبَاتِهَا ثُمَّ يَأْمُرُ اللَّهُ السَّمَاءَ فِي السَّنَةِ الثَّالِثَةِ فَتَحْبِسُ مَطَرَهَا كُلَّهُ فَلاَ تَقْطُرُ قَطْرَةٌ وَيَأْمُرُ الأَرْضَ فَتَحْبِسُ نَبَاتَهَا كُلَّهُ فَلاَ تُنْبِتُ خَضْرَاءَ فَلاَ تَبْقَى ذَاتُ ظِلْفٍ إِلاَّ هَلَكَتْ إِلاَّ مَا شَاءَ اللَّهُ " . قِيلَ فَمَا يُعِيشُ النَّاسَ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ قَالَ " التَّهْلِيلُ وَالتَّكْبِيرُ وَالتَّسْبِيحُ وَالتَّحْمِيدُ وَيُجْرَى ذَلِكَ عَلَيْهِمْ مَجْرَى الطَّعَامِ (۱/۱۳۸)
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسیح دجال کی آمد سے قبل تین سال لوگوں کے لئے شدید مصائب کے ہوں گے۔ اس زمانہ میں شدید قحط پڑے گا، اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کو حکم دے گا۔ چنانچہ پہلے سال آسمان اپنا تہائی پانی روک لے گا اور زمین تہائی نباتات سے خالی ہو جائے گی، دوسرے سال آسمان باقی ماندہ پانی میں سے مزید تہائی پانی روک لے گا اور زمین باقی ماندہ سبزہ میں سے مزید تہائی سے محروم ہو جائے گی۔ پھر تیسرے سال اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق آسمان سے ایک قطرہ پانی نہیں برسے گا اور پوری روئے زمین چٹیل میدان ہو جائے گی اور تمام چرند پرند ہلاک ہو جائیں گے، ماسوائے ان کے جنہیں اللہ باقی رکھنا چاہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ایسے حالات میں انسان زندہ کیسے رہیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس وقت مؤمنین کا سبحان اللہ، الحمد للہ اور اللہ اکبر کہنا ان کی غذای ضرورت کو پورا کرنے اور روح و بدن کے رشتہ کو قائم رکھنے کے لئے کفایت کر جائے گا۔‘‘
بہرکیف مذکورہ بالا تمام اخبار و احادیث کو مدنظر رکھتے ہوئے اور موجودہ زمانہ میں صیہونیت کے علمبردار یہود و نصاریٰ کی تیسری عالمی جنگ چھیڑنے کی شدید خواہش اور کوششوں کو موجودہ امریکی صدر کے اقوال و عزائم کی روشنی میں دیکھتے ہوئے بظاہر یہی آتا ہے کہ آدم و ابلیس کے درمیان جس خیر و شر کی کشمکش کا آغاز روزِ اول ہوا تھا، اس کا آخری معرکہ بہت نزدیک ہے۔ بقول علامہ اقبال:
اسلام کو پھر معرکہ روح و بدن پیش تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اللہ کو پامردی مؤمن پہ بھروسہ ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
اس زمانہ میں اس بات سے تو کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ امریکہ اور یورپ اس وقت صہیونیت کے شکنجہ میں پوری طرح کسے جا چکے ہیں جس کے باعث مغربی سیاست میں اسرائیل کا تحفظ اور دفاع تمام حکومتوں اور خصوصاً امریکہ کے لئے اوّلین ترجیح کی حیثیت