کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 222
’’نبی كريم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا: سنا ہے کہ ایک ایسا شہر ہے جس کے ایک جانب خشکی اور ایک جانب سمندر ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فرمایا: ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! (یعنی وہ قسطنطنیہ ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی حتیٰ کہ اسحٰق علیہ السلام کی اولاد میں سے ستر ہزار افراد اس شہر میں تمہارے مقابلے کے لئے نازل نہ ہوں گے (یعنی ایک جانب سے بحریاور دوسری جانب سے فضائی افواج حملے کے لئے اُتریں گی)۔ تمہارے پاس ان کے مقابلے کے لئے تیر و تلوار (یعنی ان کے ہم پلہ اسلحہ) نہیں ہوگا تو اس وقت تم صرف لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر کہو گے اور ایک فوج جو سمندر کی جانب ہو گی، گر جائے گی (یعنی غرق ہو جائے گی) پھر دوسری مرتبہ لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر کہو گے تو دوسری جانب کی بری فوج گر جائے گی (یعنی زمین میں دھنس جائے گی)۔ اس کے بعد تم تیسری مرتبہ لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر کہو گے تو ہر طرف کھل جائے گا (یعنی باقی دشمن بھاگ کھڑے ہوں گے)۔ پھر شہر میں داخل ہو کر تم مالِ غنیمت سمیٹو گے کہ اچانک اعلان ہو گا کہ دجال نکل آیا ہے۔ تب تم ہر چیز کو چھوڑ کر دجال کی طرف پلٹو گے۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ فتح قسطنطنیہ کسی مقابلہ کے نتیجہ میں نہیں بلکہ خالصتاً معجزاتی طور پرمسلمانوں کو عطا کی جائے گی اور غالباً اس کا مقصد مسلمانوں کی حالتِ ایمانی کو انتہا درجہ پر لے جانا مقصود ہے تاکہ اس کے فوراً بعد خروجِ دجال کا جو واقعہ ظہور پذیر ہونا ہے، اس کے مقابلہ کی اہلیت مسلمانوں میں پیدا ہو سکے۔ چونکہ خروجِ دجال سے بڑا فتنہ نوعِ انسانی میں کبھی رونما ہوا ہے اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا، چنانچہ اس فتنہ کا مقابلہ صرف وہی مسلمان کر سکیں گے جن کی ایمانی کیفیت عام سطح سے بہت بلند ہو گی۔
اسی نوعیت کا ایک اور اشارہ ایک دوسری حدیث سے بھی ملتا ہے جس کے مطابق مسیح دجال کی آمد کے زمانہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ مؤمنین کو ایک اور کرامت بھی عطا فرمائے گا، یہ حدیث سنن ابن ماجہ، مسند احمد اور مسند ابی یعلی وغیرہ میں بعض صحیح اور بعض ضعیف طرق کے ساتھ مروی ہے اور علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اپنی کتاب قصة مسیح الدجال میں نقل فرمایا ہے۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ:
((وَإِنَّ قَبْلَ خُرُوجِ الدَّجَّالِ ثَلاَثَ سَنَوَاتٍ شِدَادٍ يُصِيبُ النَّاسَ فِيهَا جُوعٌ شَدِيدٌ يَأْمُرُ اللَّهُ السَّمَاءَ فِي السَّنَةِ الأُولَى أَنْ تَحْبِسَ ثُلُثَ مَطَرِهَا وَيَأْمُرُ الأَرْضَ فَتَحْبِسُ ثُلُثَ نَبَاتِهَا ثُمَّ يَأْمُرُ السَّمَاءَ فِي السَّنَةِ الثَّانِيَةِ فَتَحْبِسُ ثُلُثَىْ