کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 221
پر حملے کئے جائیں گے اور غالباً اسی دوران استنبول کو یورپ کا حصہ قرار دیکر اہل مغرب اس پر قبضہ کر لیں گے اور اس کے نتیجہ میں تیسری جنگِ عظیم کا آغاز ہو جائے گا۔ اس جنگ کے نتیجہ میں مسلمانوں اور عیسائیوں کا شدید جانی اور مالی نقصان ہو گا، مگر بالآخر مسلمان استنبول کو دوبارہ فتح کر لیں گے۔ اس موقعہ پر مسلمانوں کی تعداد قلیل اور عیسائیوں کے معاشی طور پر دیوالیہ ہو جانے کا فائدہ اُٹھا کر یہودی اپنی عالمی بادشاہت کا اعلان کر دیں گے اور یہودی بادشاہ مسیح دجال منظر عام پر آجائے گا۔ اور ان تمام واقعات کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں ہو گا، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:: ((بین الملحمة وفتح المدينة ست سنين ويخرج المسيح الدجال في السابعة)) (سنن ابو داؤد: 4296)
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنگِ عظیم اور فتح مدینہ یعنی استنبول چھ سال کی مدت میں پیش آئیں گے جبکہ مسیح دجال کے خروج کا معاملہ ساتویں سال پیش آئے گا۔
مگر بظاہر اس پورے منظر نامہ کو دیکھتے ہوئے ایک اہم سوال جو عام ذہن میں پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ مسلمانوں کی جو حالتِ زار موجودہ زمانہ میں ہے یعنی مسلمان معاشی اور عسکری اعتبار سے پسماندگی کا شکار ہیں جبکہ اہل مغرب ہر قسم کے جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں، اس کے باوجود کس طرح مسلمان اہل مغرب کو شکست دیں سکیں گے؟ تو اس کا جواب خود احادیث میں موجود ہے، چنانچہ صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال:: (سمعتم بمدينة جانب منھا في البر وجانب منھا في البحر)) قالوا: نعم يا رسول الله. قال: ((تقوم الساعة حتي يغزوھا سبعون ألفا من بني إسحٰق فاذا جاءوھا نزلوا فلم يقاتلوا بسلاح ولم يرموا بسھم، قالوا: لا إله الا الله والله أكبر فيسقط أحد جانبھا.)) قال ثور: لا أعلمه إلا قال الذي في البحر۔ (ثم يقولوا الثانية: لا إله إلا الله والله أكبر فيسقط جانبھا الاٰخر۔ ثم يقولوا الثالثة: لا إله إلا الله والله أكبر فيفرج لھم فيدخلوھا فيغنموا فبينماھم يقتسمون المغانم إذ جاءھم الصريخ۔ فقال: إن الدجال قد خرج فيتركون كل شيء ويرجعون))