کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 218
اسرائیل اور مسجدِ اقصیٰ کے انہدام کی صورت میں اگر کسی اسلامی ملک کی طرف سے کوئی عسکری مزاحمت ہو سکتی ہے تو وہ صرف پاکستان ہو گا، کیونکہ پاکستان کے پاس اعلیٰ تربیت یافتہ فوج، ایٹمی اسلحہ اور میزائل ٹیکنالوجی کی جو صلاحیت ہے، وہ کسی دوسرے اسلامی ملک کے پاس نہیں ہے۔ مزید برآں امریکہ کی اس تمام مہم جوئی کی اصل صرف یہی نہیں کہ وہ اسرائیل کو توسیع کی کھلی چھٹی دینا چاہتا ہے اور پاکستان کو ایٹمی اور فوجی صلاحیت سے محروم کرنا چاہتا ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اب یہودی لابی افغانستان اور عراق میں ہونے والی شدید مزاحمت اور عالمی معاشی عدمِ استحکام کے باعث امریکہ کے زوال کو بہت قریب دیکھ رہی ہے۔ چنانچہ امریکہ کے زوال سے قبل یہودی امریکہ کو ایک آخری مرتبہ بھرپور طور پر اسی طرح استعمال کرنا چاہتے ہیں جس طرح یہودی گذشتہ دی میں ڈوبتی ہوئی سلطنتِ برطانیہ سے اپنے لئے اسرائیل حاصل کر کے برطانیہ کو اپنے مفتوحہ علاقوں میں سے اپنے اقتدار کے سائے کو سمیٹتے ہوئے اکیلا چھوڑ گئے تھے۔ یہودی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ کعبہ یعنی بیت اللہ مسلمانوں کی مرکزیت کی علامت ہے اور جب تک بیت اللہ موجود رہے گا، اس وقت تک مسلمانوں کے متحد ہونے کا امکان تلوار بن کر یہودیوں کے سر پر لٹکارہے گا اور اگر کبھی مسلمانوں کو صلاح الدین ایوبی جیسی قیادت میسر آگئی اور مسلمانوں نے متحدہ جدوجہد کا آغاز کر دیا تو پھر کوئی مسلمانوں کے اس سیل رواں کا راستہ نہیں روک سکے گا۔ چنانچہ اس کا علاج یہی ہے کہ اس امکان کا سد باب کر دیا جائے اور اس کے لئے بروقت اور بھرپور طاقت کا استعمال کر کے معاذ اللہ مکہ معظمّہ اور مدینہ منورہ کو ہی صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے!! عین ممکن ہے کہ اس تناظر میں ہماری اس بات کو شاید بعض بزعم خود روشن خیال حضرات محض ایک گپ یا مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیلانے اور بین المذاہب ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کے خلاف ایک سازش قرار دیں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ مغرب میں بعض تھنک ٹینک مسلمانوں کے ان مقدس مقامات کو مٹانے کی باقاعدہ سازشیں کر رہے ہیں اور امریکہ کا موجودہ صدر باراک اوباما بھی ان ہی لوگوں میں سے ایک ہے۔اس ضمن میں بطورِ ثبوت ایک خبر ملاحظہ ہو: