کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 217
اوباما نے امریکہ اسرائیل پبلک افیرز کمیٹی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کی سلامتی مقدس ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، یہ کمیٹی یہودیوں کی ایک ممتاز لابی کہلاتی ہے۔‘‘ (بی بی سی اُردو ویب سائٹ: 4/ جون 2008ء) باراک اوباما کا مذکورہ بالا یہ بیان صدارتی الیکشن کی کسی تقریر کا حصہ نہیں جسے محض ووٹرز کو متوجہ کرنے کی کوشش کہہ کر ٹالا جا سکے بلکہ یہ ‘پہلی پالیسی تقریر‘ کا ایک حصہ ہے یعنی صدرِ امریکہ کی ایک متعین خارجہ پالیسی کا اظہار اور عزم اور ایک مستند رُخ ہے۔ اب اسی کے ساتھ صدرِ امریکہ کی خارجہ پالیسی کا ایک دوسرا رُخ بھی ہم قارئین کے سامنے لانا چاہتے ہیں، اس ضمن میں یہ خبر ملاحظہ ہو: ’’نو منتخب امریکی صدر باراک اوباما کی طویل انتخابی مہم کے دوران جب بھی خارجہ پالیسی کی بات ہوئی تو عراق اور افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کا نام بھی آتا رہا۔ ان پر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں القاعدہ کے خلاف براہِ راست کاروائی کے لئے فوج بھیجنے کے بیان پر تنقید بھی ہوئی، لیکن اوباما آخر تک پاکستان میں براہِ راست کاروائی کے اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ صدر منتخب ہونے کی صورت میں پاکستان سے متعلق اپنے لائحہ عمل کی وضاحت اپنی ویب سائٹ پر کرتے ہوئے اوباما کہتے ہیں کہ اصل میدانِ جنگ افغانستان اور پاکستان ہیں۔‘‘ (بی بی سی اُردو ویب سائٹ: 5/ نومبر 2008ء) پس نیو ورلڈ آرڈر یعنی تسخیر عالم کے یہودی منصوبہ میں اس وقت باراک اوباما کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے، اس لئے موجودہ امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے اوپر اسرائیل کی حفاظت اور پاکستان کی بربادی کو جواب کر لیا ہے، کیونکہ بقول باراک اوباما پاکستان میدان جنگ ہے اور میدانِ جنگ وہ جگہ ہوتی ہے، جہاں ہر چیزِ حالتِ جنگ میں ہوتی ہے۔ نیز میدانِ جنگ میں جان و مال کی بربادی ہونا بھی ایک یقینی بات ہے۔ جیسا کہ افغانستان اور عراق کا میدانِ جنگ بننے کے بعد جو حال ہوا، تمام لوگ اس سے بخوبی واقف ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ امریکہ کی یہودی لابی پاکستان کو میدانِ جنگ بنانا چاہتی ہے، اس ضمن میں صاف ظاہر ہے کہ اسرائیل کی توسیع پسندانہ عزائم یعنی گریٹر