کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 214
قائم و دائم ہو (مثلاً سچ بولنا، ریاست سے وفاداری وغیرہ) تو اس کے خلاف دعوت دینے والوں کو وہ بھی بذریعہ قوت روک دیتی ہیں۔ اسلام کے نزدیک انسان کا سنگین ترین مسئلہ بیماری یا غربت نہیں بلکہ اپنے ربّ کا انکار اور اس سے سر کشی و بغاوت (فسق، کفر، شرک، طاغوت) ہے اور بغاوت کا فروغ کبھی بطورِ پالیسی اختیار نہیں کیا جاتا۔ اس رویے کی وضاحت اس مثال سے کی جاسکتی ہے کہ جب کبھی یہ کہا جائے کہ ٹی وی بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دے رہا ہے تو یہ عجیب و غریب فلسفہ سننے کو ملتا ہے کہ ’’جناب ٹی وی پر تو مذہبی چینلز بھی آتے ہیں، تو جو چاہے فلموں اور گانوں کے بجائے ان چینلز کو دیکھ لے۔‘‘ اس فلسفے کا بودا پن اوپر بیان کی گئی تفصیلات سے واضح ہو جانا چاہئے۔ اس مثال میں اصل سوال یہ نہیں کہ آیا ٹی وی پر مذہبی پروگرام آتے ہیں یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ اگر فحاشی و عریانی پھیلانا برائی اور جرم ہے تو اس کے فروغ کو بطورِ ایک ’حق‘ اور ’پالیسی‘ کیسے اختیار کرلیا جائے ؟ اس دلیل کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم افیون اور چرس بیچنے والے کو بھی اپنے کاروبار کے فروغ کی کھلی چھٹی دے دیں، کیونکہ وہ بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ جناب بازار میں کھانے کی بے شمار اشیا موجود ہیں، لوگ چاہیں تو میری چرس کے بجائے انہیں استعمال کرلیں۔ پس یاد رکھنا چاہئے کہ ٭ مادر پدر آزادی ردّہے عبدیت کا ٭ مساوات ردّ ہے نظامِ ہدایت و تزکیۂ نفس کا ٭ عیش وآرائش کے لئے ترقی ردّ ہے دنیا کے دارالامتحان ہونے اور معرفت ِ خداوندی کے امکان کا ٭ انسانیت ردّ ہے مسلمانیت کا ٭ Plurality of goods ردّ ہے اسلام کے الحق ہونے کا ٭ Tolerance ردّ ہے ایمان اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا ہمیں چاہئے کہ ہم چیزوں کی حقیقت کا علم حاصل کریں تاکہ آزادی، مساوات، Tolerance اور plurality of goods جیسے گمراہ کن تصورات کی نسبت اللہ اور اس کے رسول کی طرف کرنے سے بچ سکیں۔