کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 213
غلبہ کفر کے فتنے کو پوری قوت سے مٹانے کی کوشش کرو اور جو لوگ میرے دین کو نہیں مانتے وہ چھوٹے ہو کر زندگی بسر کریں۔
کوئی فرد اگر اپنی انفرادی زندگی میں کفر اختیار کرنا چاہتا ہے تو کرے مگر اسے یہ حق نہیں کہ وہ بندگانِ خدا پر باطل نظامِ اِکراہ مسلط کرکے اُنہیں جہنم کی طرف گھسیٹ کر لے جائے، اس سے بہتر یہ ہے کہ مسلمان ان پر اِکراہ کریں اور اُنھیں اس مقام پر لا کھڑا کریں جہاں اگر وہ چاہیں تو بآسانی جنت کا راستہ تلاش کرسکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام اس قیمت پر حق کی اشاعت کی دعوت خریدنا نہیں چاہتا کہ اس کے جواب میں اسے جھوٹ کی دعوت دینے کی آزادی دینی پڑے۔ وہ اپنے ماننے والوں سے کہتا ہے کہ اگر تم سچے دل سے مجھے حق سمجھتے ہو اور نوعِ انسانیت کی بھلائی میری پیروی میں دیکھتے ہو تو دنیا کو میری طرف دعوت دو اور مجھے قائم کرنے کی جدوجہد کرو، خواہ اس کام میں تمہیں گلزارِ ابراہیمی کا سامنا کرنا پڑے یا آتشِ نمرود کا۔ یہ تمہارے ایمان کا تقاضا ہے کہ تم اس امتحان میں کامیاب ہوتے ہو یا نہیں، لیکن میرے لئے یہ نا ممکن ہے کہ تمہیں راہِ حق کی خطرناکیوں سے بچانے کے لئے باطل پرستوں کو یہ ’حق‘ دے دوں کہ وہ خدا کے بندوں کو گمراہ کریں اور اُنہیں جہنم کے راستوں کی طرف ہانک لے جائیں۔
پھر کفر کی، ، دعوت و تبلیغ دو میں سے کسی ایک حال سے خالی نہیں، یا تو وہ سیاسی نوعیت کی دعوت ہوگی اور یا پھر اخلاقی۔ اگر وہ دعوت سیاسی نوعیت کی ہو اور اس کا مقصد نظامِ زندگی میں تغیر ہے تو جس طرح دنیا کی ہر ریاست ایسی دعوت کی مزاحمت کرتی ہے، اسی طرح اسلام بھی اس کی مخالفت کرتا ہے۔ اگر وہ دعوت محض مذہبی و اخلاقی نوعیت کی ہے تو دنیاوی ریاستوں کے بر خلاف اسلام اس کی اجازت بھی نہیں دے سکتا، کیونکہ کسی اخلاقی و اعتقادی گمراہی کو اپنی نگرانی و حفاظت میں سر اُٹھانے کا موقع دینا اس مقصد ہی کی ضد ہے جس کے لئے اسلام زمامِ کار اپنے ہاتھ میں لیتا ہے۔
دنیاوی ریاستوں کو چونکہ فرد کی اُخروی کامیابی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا لہٰذ وہ اعتقادی گمراہی کا سد باب کرنے کی فکر نہیں کرتیں۔ البتہ جس اخلاقی قدر پر ان کی ریاست کا نظام