کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 212
معاشرتی و ریاستی احکامات ہمیشہ طاقِ نسیاں میں ہی پڑے رہیں گے۔
اسلام اور تبلیغ کفر کی اِجازت
یہیں سے یہ نکتہ بھی صاف ہوجاتا ہے کہ اسلام اپنی دائرہ عمل میں تبلیغ کفر کی اجازت کیوں نہیں دیتا۔ کسی شخص کا خود اپنی ذاتی زندگی میں ایک عقیدے کو ماننا اور بات ہے اور اس کا اپنے نظریات کے مطابق اجتماعی زندگی کی تعمیر کی دعوت دینا نیز اس کے مطابق نظام زندگی بنانا اور اسے بذریعہ قوت خلق خدا پر نافذ کرنا ایک دوسری چیز ہے۔ حق تو یہ ہے کہ جو لوگ خدا کے باغی ہوں اُنہیں خدا کی زمین میں بسنے کا حق بھی نہ ہونا چاہئے مگر یہ اللہ تعالیٰ کا انتہائی حلم ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو نہ صرف یہ کہ جینے کی مہلت دیتا ہے بلکہ اُنہیں اپنی ذاتی زندگی میں کفر پر قائم رہنے کا اختیار بھی دیتا ہے جب تک کہ ان کی بغاوت دوسرے بندگانِ خدا کے لئے فتنہ و فساد کا باعث نہ بن جائے۔ اپنے اُصولی دعوے کے بعد اسلام کے لئے یہ بات پسند کرنا تو درکنار قبول کرنا بھی مشکل ہے کہ بنی نوع انسانی کے اندر وہ دعوتیں پھیلیں جو اسے ابدی ہلاکت کی طرف لے جانے والی ہوں۔ وہ داعیانِ باطل کو یہ رعایت دینے کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ جس آگ کے گڑھے کی طرف وہ خود جارہے ہیں، دوسروں کو بھی اس کی طرف کھینچ کر لے جائیں۔ زیادہ سے زیادہ جس چیز کو وہ بادلِ نا خواستہ قبول کرتا ہے، وہ یہ ہے کہ جو شخص خود کفر کے راستے پر قائم رہنا چاہتا ہے، اسے اختیار ہے کہ اپنی فلاح کے راستے کو چھوڑ کر بربادی کے راستے پر چلتا رہے۔ انسانیت کی خیر خواہی اور عدل کا تقاضا تو یہ تھا کہ اگر بالجبر لوگوں کو کفر کے زہر سے بچانا ممکن ہوتا تو اسلام ہر شخص کا ہاتھ پکڑ کر اسے یہ زہر پینے سے روک دیتا مگر ایمان ایسی شے نہیں جو بذریعہ قوت کسی کے دل میں ڈال دی جائے۔ فرد کی اس جبری حفاظت سے اسلام کے اجتناب کی وجہ یہ نہیں کہ اسلام کفر اور جہنم کی طرف جانے کو فرد کا ’حق‘ سمجھتا ہے اور انہیں روکنے کو ’باطل‘ گردانتا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی شخص کفر کے تباہ کن نتائج سے اس وقت تک بچایا نہیں جاسکتا جب تک وہ خود کفر کے نقصانات کا معترف ہوکر مسلمان نہ ہوجائے۔ اس لئے اسلام کہتا ہے کہ کفار کو دین حق پر ایمان لانے کے لئے مجبور تو نہ کرو، لیکن