کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 211
ذاتی مذہبی عقائد و عبادات کا تعلق ہے تو غیر مسلموں کے ساتھ لا اِکراہ في الدین کا معاملہ کیا جائے کہ کسی غیر مسلم پر اسلام قبول کرنے میں جبر روا نہیں رکھا جائے گا۔ یہی درست اسلامی تصورِ رواداری ہے کہ اسلام کے بجائے کفر حالت ِمغلوبیت کا شکار ہو۔ دوسروں کو ان کے مسلک پر چلنے دینا بے شک رواداری ہے مگر یہ کوئی رواداری نہیں کہ اپنے طریقۂ حیات کے خلاف اپنے اوپر دوسروں کا طریقہ مسلط کرلیا جائے۔ اِسی طرح بعض جدید مفکرین نے قرآنی آیت:﴿فَذَکِّرْ اِنَّمَا اَنْتَ مُذَکِّرٌ٭ لَّسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ﴾(الغاشیہ: ۲۱، ۲۲) ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نصیحت کرتے رہئے کہ آپ تو نصیحت ہی کرنے والے ہیں، ان پر جبر کرنے والے نہیں۔ ‘‘ سے یہ مفہوم اخذ کرنے کی کوشش کی کہ علماے دین کا کام محض دعوت دینا ہے نہ کہ غلبہ دین کے لئے کوئی منظم حکمت عملی اختیار کرنا اور اجتماعی صف بندی وغیرہ کرنا۔ آیت کی یہ تشریح کسی ایک قرآنی آیت کو قرآن کی عمومی تعلیمات سے ہٹا کر معنی نکالنے کی عمدہ مثال ہے۔ آیت کا سیدھا سا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص معقول دلائل او رنصیحت کے بعد بھی حق کو قبول نہیں کرتا، اسے زبردستی حق قبول نہیں کروایا جائے گا۔ ویسے بھی رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب ِمبارک پر کفار کا انکارِ اسلام بہت ہی شاق گزرتا اور آپ اس رنج میں مبتلا رہتے کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے، تو آیت ِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی کے لئے فرما رہا ہے کہ اے حبیب! آپ فکر مت کیجئے، ان کے ایمان قبول نہ کرنے کی کوئی ذمہ داری آپ پر نہیں، کیونکہ آپ ان پر بطور داروغہ مسلط نہیں کئے گئے کہ اُنہیں ایمان قبول کروانا آپ کے فرائض نبوت میں شامل ہو۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ آیت مکی دور سے متعلق ہے جہاں مسلمانوں کو عملاً سیاسی غلبہ حاصل نہ ہوا تھا، اس کے مقابلے میں مدنی آیتوں میں واضح طور پر اقامت ِ دین کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآنی آیات کے معنی کو درست طور پر سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ مکی اور مدنی آیات کو ملا کر پڑھا جائے تاکہ آیات کے عموم اور خصوص کا درست اطلاق معلوم ہوسکے۔ اگر یہ اُصول مان لیا جائے کہ دین محض نصیحت ہی کا نام ہے تو اللہ تعالی کے نازل کردہ بے شمار