کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 210
ہے۔ اللہ مددگا رہے ایمان والوں کا وہ اُنہیں (جہالت کی) تاریکیوں سے (ہدایت کی) روشنی کی طرف نکال لے جاتا ہے۔ اور جنہوں نے (ہدایت کا ) انکار کیا ان کے ساتھی طاغوت ہیں جو اُنہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں، یہی لوگ آگ میں جانے والے ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ قرآن نے ہدایت و خیر کے لئے لفظ ’نور‘ مفرد اور گمراہی کے لئے ’ظلمات‘ جمع استعمال کرکے یہ بتا دیا کہ حق اور خیر درحقیقت صرف ایک ہی ہے جبکہ جہالت کی کئی شکلیں ہیں۔ خوب یاد رہے کہ ارادۂ خداوندی سے باہر یا اس سے ماوراے کسی حق اور خیر کا کوئی وجود ہے ہی نہیں، خیر اور حق وہی ہے جسے اسلام خیر اور حق کہتا ہے نیز اسلامی نظام زندگی میں ارادۂ خداوندی سے متصادم تصورات ہر گز بھی مساوی معاشرتی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ اُنہیں لازماً وہی پوزیشن اختیار کرنا ہوتی ہے جس کے لئے قرآن صَاغِرُوْن حالت ِمغلوبیت (التوبہ : ۲۹) کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔ قرآنی آیت کا مطلب صرف یہ ہے کہ اسلام اپنے عقائد کسی سے زبردستی نہیں منواتا کہ یہ بذریعہ قوت منوانے کی چیز نہیں۔ اسلام اپنے نظامِ عمل میں ذاتی عقائد اور عبادات اختیار کرنے کی آزادی دینے پر تو تیار ہے مگر وہ اس بات کو ہر گز گوارا نہیں کرتا کہ اللہ کے قوانین معاشرت و ریاست کے سوا کسی اور کے بنائے ہوئے قوانین کی عمل داری مخلوقِ خدا پر قائم و دائم ہو اور اللہ کی زمین پر اس کے باغیوں کا غلبہ ہو نیز مسلمان ان کے تابع ہو کر اطمینان سے زندگی بسر کریں۔ اجتماعی زندگی کے اس معاملے میں لامحالہ ایک فریق کو دوسرے فریق کے ’دین‘ میں مداخلت کرنا ہی ہوگی۔ اگر مسلمان ’مذہب ِکفر‘ میں دخیل نہیں ہوں گے، توکافر ’مذہب اسلام‘ میں مداخلت کرکے رہیں گے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی زندگی کے بہت بڑے حصے پر مذہب کفر جاری و ساری ہوگا، جیسا کہ موجودہ حالات میں عین واضح ہے کہ کفر اپنی پوری قوت کے ساتھ اسلام پر حملہ آور ہے۔ لہٰذا بجائے اس کے کہ یہ مداخلت کفار کی طرف سے ہو اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان اللہ کی مخلوق پر اہل کفر کے ظلم وستم کا خاتمہ کریں اور پھر جہاں تک