کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 209
﴿کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ﴾ (آل عمران: ۱۱۰)
’’تم دنیا میں وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کی ہدایت کیلئے برپا کی گئی ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور بدی سے روکتے ہو۔‘‘
دین میں جبر نہیں !
قرآنی آیت ﴿لاَ اِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ﴾ ’’دین میں کوئی زبردستی نہیں ‘‘ (البقرۃ : ۲۵۶ ) کو بھی اس کے عمومی معنی کی آڑ میں اسلام میں آزادی و رواداری کے جواز کے طور پر پیش کیاجاتا ہے، حالانکہ اس کا اصل مفہوم بھی قریب قریب وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا جیسا کہ مکمل آیت پڑھنے سے عین واضح ہوجاتاہے۔ اس آیت کو یہ عمومی معنی پہنانا کہ دین کے کسی معاملے میں کوئی جبر ہے ہی نہیں، آیت کی بالکل غلط تعبیر ہے، کیونکہ اس تشریح کے بعد اسلام کے تمام معاشرتی و سیاسی احکامات کالعدم ہو جائیں گے۔ مثلاً اسلامی ریاست میں کوئی شخص چوری کرے اور جب ہاتھ کٹنے کی باری آئے تو کہہ دے: ﴿لاَ اِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ﴾ اِسی طرح اس آیت سے تمام تصوراتِ زندگی کی اخلاقی و معاشرتی مساوات (plurality of goods) کا اُصول نکالنا بھی سراسر غلط ہے، کیونکہ اگر آیت کو پورا پڑھ لیا جائے تو اس نظرئیے کی تردید ہوجاتی ہے۔ مکمل آیت کا ترجمہ یہ ہے :
﴿لَا إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤمِنْ بِاﷲِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لَا انْفِصَامَ لَہَا وَﷲُ سَمِیْعُ عَلِیْمٌ٭ ﷲُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُہُمْ مِنَ الظُّلُمَات إِلَی النُّوْرِ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَوْلِیَائُہُمْ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُوْنَہُمْ مِنَ النُّوْرِ إِلَی الظُّلُمٰتِ اُوْلٰئِکَ أصْحٰبُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُوْنَ﴾(البقرۃ: ۲۵۶، ۲۵۷ )
’’دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں، بے شک ہدایت گمراہی سے خوب واضح ہوگئی ہے، پس جو کوئی طاغوت (بندگی کا انکار کرنے والے) کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا تو اس نے ایسا مضبوط سہار تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے اور جاننے والا