کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 207
ہے، پھر اسے پھیلنے کی مکمل آزادی اور حق بھی دے دے؟ ایسی بے وقوفی کی اُمید تو ایک عام انسان سے بھی نہیں کی جاسکتی چہ جائیکہ اس کی نسبت اللہ اور اس کے رسول کی طرف کرنے کی جسارت کی جائے۔
اسلام کا خود کو حق کہنا اور اس کی طرف پوری قوت سے دعوت دینا اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ دوسرے نظامات کو ہٹا کر ان کی جگہ اپنا نظامِ اقتدار قائم کرنے کا مطالبہ کرے اور اپنے ماننے والوں کا طرۂ امتیاز اسی کو قرار دے کہ آیا وہ اس جدوجہد میں جان و مال کھپا تے ہیں یا نہیں۔ اس معاملے میں یہ سوال ہی غیر اہم ہے کہ کفار ہماری اس جدوجہد کو برداشت کریں گے یا نہیں یا ہمیں غیر مسلموں کا تعاون حاصل ہوگا یا نہیں ؟
اسلام کی اس اُصولی پوزیشن سے یہ نتیجہ خود بخود نکلتا ہے کہ حقیقی مسلمان کا وجود ہر غیر اسلامی ریاست کے لئے کھلا چیلنج ہی ہونا چاہئے، کیونکہ کوئی اسے برداشت کرے یا نہ کرے بہرحال اسلام کا تقاضا اپنے ماننے والوں سے یہی ہے کہ جہاں کہیں خدا کا قانون نافذ نہیں ہے اور ظلم وستم کا دور دورہ ہے، وہاں ظلم وستم کا خاتمہ کرکے ایسے حالات پیدا کردیں کہ غیرمسلموں کو اسلام قبول کرنے کی آزادی میسر آجائے۔
بلاشک و شبہ اسلام امن و سلامتی کا حامی ہے مگر اس کی نگاہ میں حقیقی امن اور سلامتی وہی ہے جو نفاذِ شریعت سے حاصل ہوتی ہے۔ جو کوئی اسلام میں امن و سلامتی کا مطلب یہ سمجھا کہ شیطانی و طاغوتی نظاموں کے زیر سایہ سارے کاروبارِ زندگی پورے اطمینان سے چلتے رہیں اور مسلمان کو خراش بھی نہ آئے، وہ اسلام کا نقطہ نظر بالکل نہیں سمجھا۔[1] اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے