کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 206
ایسے ہی ایک منزل سے نیچے دوسری میں جانے کے لئے ایک سیڑھی بنا دے، اور اس کے ساتھ بلندی سے گرکر مرنے کے لئے تین راستے بھی کھلے چھوڑ کر یہ کہے کہ میں نے سب راستوں کو برابر حیثیت دے دی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اپنے بچوں کے لئے ایسا مکان بنانے کی ترکیب صرف کسی ذہنی مریض ہی کو سوجھ سکتی ہے ورنہ دنیا کا کوئی بھی شخص چاہے کتنا ہی آزادی کا دل دادہ کیوں نہ ہو ایسی حرکت نہیں کرتا بلکہ مکان بناتے وقت تمام احتیاطی تدابیر (safety-measures) اختیار کرتا ہے تاکہ جس شے (یعنی زندگی کے ہلاک ہو جانے) کو وہ برا سمجھتا ہے، اس کی روک تھام کی جا سکے اور لوگوں کو اس بات کا زیادہ سے زیادہ پابند بنایا جا سکے کہ وہ ایسا طرزِ عمل اختیار کریں جس کے نتیجے میں ان کے ہلاکت میں پڑنے کے امکانات کم از کم اور حصولِ خیر کے مواقع زیادہ سے زیادہ ہو سکیں۔ پس اس اصول پر اس دعوے کی مضحکہ خیزی بھی جانچی جا سکتی ہے کہ اسلام نظریہ رواداریTolerance اور plurality of goods کا حامی ہے۔ وہ ایسے کہ ایک طرف تو اسلام پوری قوت کے ساتھ اپنے لئے یہ دعوی کرے کہ صرف میں ہی حق ہوں باقی سب باطل ہیں نیز صرف میرا ہی راستہ حقیقی کامیابی اور نجات کا ضامن ہے باقی سب جہنم و بربادی کے راستے ہیں، لیکن اس کے بعد اس اُصولی دعوے کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے معاشرے میں جہنم اور بربادی کی طرف لے جانے والی باقی تمام باطل قوتوں کا راستہ نہ صرف یہ کہ کھلا چھوڑ دے بلکہ ان کے فروغ کے لئے ہر قسم کی سہولتیں بھی فراہم کرے۔ اگر واقعی اسلام ہی حق ہے تو یہ ماننا بھی ناگزیر ہے کہ اسلام زمین میں اپنے نظام کے علاوہ دوسرے نظاماتِ زندگی کو مغلوب کرنے کا تقاضا بھی کرے۔ یہ بات ہی سراسر مہمل ہے کہ ایک نظامِ زندگی کو باطل بھی کہا جائے اور پھر اس کا غلبہ بھی برداشت کیا جائے۔ وہ صرف ایک فاتر العقل انسان ہی ہوسکتا ہے جو بیک وقت اپنے پیش کردہ نظام کو حق بھی کہے، اس کی پیروی کا حکم بھی دے مگر ساتھ ہی اپنے ماننے والوں کو دوسرے باطل نظامات کے اندر پر امن وفادارانہ زندگی بسر کرنے کی تعلیم بھی دے۔ آخر دنیا میں وہ کون شخص ہے جو جس شے کو شر سمجھتا