کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 205
حق ہوں بلکہ وہ خود کو ’الحق‘ (the truth)کہتا ہے، یعنی وہ پورے یقین کے ساتھ کہتا ہے کہ صرف میرا ہی نظام بر حق ہے اور اسی میں نوع انسانیت کی بھلائی و کامیابی ہے نیز میرے علاوہ سب دعوتیں و نظام تباہی و بربادی کے راستے ہیں۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہوا:
﴿ إنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ ﷲِ الاِسْلَامُ﴾ (آلِ عمران: ۱۹)
’’اللہ کے نزدیک دین (یعنی زندگی گزارنے کا معتبر طریقہ ) صرف اسلام ہے۔ ‘‘
﴿وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الِاسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَ فِیْ الاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ﴾ (آلِ عمران: ۸۵)
’’جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی دوسرے طریقے کو اختیار کرے گا تو اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ہوگا اور آخرت میں وہ ناکام ہوگا۔‘‘
﴿ إنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلَا تَتَّبِعُوْا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بکُمْ عَنْ سَبِیِلِہِ ﴾ (الانعام: ۱۵۳)
’’میرا یہ راستہ ہی سیدھا راستہ ہے پس تم اسی کی پیروی کرو اور دوسرے راستوں کی پیروی مت کرو ورنہ تم اللہ کے راستے سے بھٹک جاؤ گے۔‘‘
پس اگر واقعی اسلام کا اپنے بارے میں یہی وعویٰ ہے جو اوپر بیان کیا گیا تو پھر اسلامی نقطہ نگاہ سے نظریہ روادری Tolerance اور ’ایک سے زیادہ اچھائیاں ‘plurality of goods کی بات کرنا ہی ایک مہمل بات ہے۔ یہ بات تو ہر معمولی ذہن رکھنے والا شخص بھی سمجھتا ہے کہ دنیا کا کوئی صحیح الدماغ شخص جس شے کو حق اور جسے باطل گردانتا ہے، ان دونوں کو کبھی اپنی زندگی میں مساوی حیثیت نہیں دیتا اور نہ ہی اُنہیں پنپنے کے برابر مواقع فراہم کرتا ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص مکان تعمیر کرے اور اس میں بجلی کے دو طرح کے کنکشن اور تاریں لگوائے، ایک تو وہ جن کے آگے سوئچ بورڈ اور بٹن لگے ہوں، اور دوسرے اسی دیوار میں کئی مقامات پر بجلی کی تاریں کھلی چھوڑ کر یہ کہتا پھرے کہ میں نے اپنے بچوں کو پوری آزادی دے دی ہے، چاہیں تو سوئچ بورڈ سے پنکھا چلائیں اور اگر چاہیں تو ننگی تاروں کو ہاتھ لگا کر کرنٹ سے مر جائیں۔