کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 204
وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا﴾( التحریم : ۶) ’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ۔ ‘‘ ان کا انکار کردوں اور اِنہیں نا قابل عمل گردانوں۔ آزادی و مساوات کی مغربی تعبیر کو بطورِ مستقل اسلامی اقدار ماننے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام بھی تمام تصوراتِ خیر کو مساوی حیثیت دیتا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اسلام کوئی برتر اور مکمل نظام زندگی نہیں بلکہ ایک ایسے برتر نظامہائے زندگی کا حصہ ہے جس میں تمام تصوراتِ خیر برابر ہوتے ہیں اور وہ نظام لبرل سرمایہ داری ہے۔ عالمگیریت (Globalization) کے نام پر مسلمانوں کو موجودہ نظام کے ساتھ اشتراکِ عمل کی دعوت دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس بات سے دستبردار ہوجائیں کہ اسلام ہی حق ہے اور ہم لبرل سرمایہ داری کے آلہ کار بن جائیں کیونکہ موجودہ عالمگیریت کا مطلب لبرل سرمایہ داری کے عالمی غلبے کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ ظاہر بات ہے کہ اسلام کے بارے میں یہ تصور درست نہیں، کیونکہ اسلام کا مقصد دنیا کی ہر ریاست (چاہے وہ کیسی ہی ہو) چلانے کے لئے محض پر امن اور وفادار رعیت فراہم کرنا نہیں اور نہ ہی اسلام محض چند عقائد اور اُصول و اَخلاق کا نام ہے جو ہر نظام زندگی میں کھپ سکے کیونکہ اگر معاملہ یہی ہوتا تو اسلام دیگر مذاہب سے کچھ مختلف چیز نہ ہوتا۔ اس کے بر خلاف اسلام خود ایک مکمل نظام زندگی اور بھرپور علمیت ہے جس میں عقائد، عبادات، اخلاقیات کے ساتھ ساتھ انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام معاملات سے متعلق احکام و قوانین بھی موجو۶د ہیں۔ پھر اسلا م کا اپنے بارے میں دعویٰ یہ نہیں کہ میں بہت سے تصوراتِ حق میں سے ایک