کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 202
بلکہ اسلامی ریاست کا تو مقصد ہی اس خیر کو جو اِرادۂ خداوندی کی صورت میں نازل ہوا تمام دیگر تصوراتِ خیر (جو در حقیقت شر ہیں ) پر غالب کردینا ہے، نہ کہ ان کے ساتھ مفاہمت کرنا اور خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کرکے اُنہیں مساوی حیثیت عطا کردینا۔
قرآنِ مجید میں ارشاد ہوا: ﴿ہُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنَ کُلِّہِ﴾ (الفتح: ۲۸)
’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے۔‘‘
دوسرے لفظوں میں نظامِ ہدایت مساوات کا نہیں بلکہ حفظ ِمراتب کا متقاضی ہے جس میں افراد کی درجہ بندی کا معیار (differentiating factor)تقویٰ ہوتا ہے نیز اسلامی معاشرے و ریاست کا مقصد جمہوری معاشرے کی طرح ہرفرد کو اپنی اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گزارنے کے مساوی مواقع فراہم کرنا نہیں بلکہ ان کی خواہشات کو نظامِ ہدایت کے تابع کرنے کا ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اسی لئے اسلامی نظریۂ ریاست میں citizen(ایسی عوام جو اُصولاً حاکم اور فیصلہ کرنے والی ہو) اور عوامی نمائندگی(Representation of citizens) کا کوئی تصور ہے ہی نہیں، کیونکہ یہاں عوام citizen نہیں بلکہ اللہ کے بندے/مسلمان ہوتے ہیں اور خلیفہ عوام کا نمائندہ نہیں ہوتا کہ جس کا مقصد عوام کی خواہشات کے مطابق فیصلے کرنا ہو بلکہ وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سیاسی نائب ہوتا ہے جس کا مقصد مسلمانوں کی خواہشات اور اعمال کو شریعت کے تابع کرنے کے لئے نظامِ ہدایت کا نفاذ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس آزادی و مساوات کا معنی یہ ہے کہ خیر و شراور اپنی منزل کا تعین انسان خود طے کرے گا اور ہر شخص کا تصور خیرو زندگی گزارنے کا طریقہ مساوی معاشرتی حیثیت رکھتا ہے اور ریاست کا مقصد ایسی معاشرتی صف بندی وجود میں لانا ہوتا ہے جہاں ہر فرد اپنی خواہشات کو ترتیب دینے اوراُنہیں حاصل کرنے کا زیادہ سے زیادہ مکلف ہوتا چلا جائے۔