کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 201
دیگر مخلوقات کے مقابلے میں انسان کو یہ ذریعہ و صلاحیت حاصل ہے کہ وہ خیر وشر میں سے کسی ایک کو اختیار کرسکتا ہے، جس کا انجام روزِ آخرت اس کو بھگتناہوگا، مگر اسلامی نظامِ زندگی میں آزادی بطورِ ایک قدر (freedom as value) کا کوئی مقام نہیں، کیونکہ اصل قدر آزادی استعمال کرنے کا حق نہیں بلکہ اسے اپنے ربّ کے سپرد (surrender)کردینا ہے یعنی قدر آزادی نہیں بلکہ عبدیت ہے۔
مغرب میں آزادی اعلیٰ ترین خیر ہے، کیونکہ ان کے مطابق اصل حیثیت اس چیز کی نہیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں بلکہ اس کی ہے کہ آپ جو چاہنا چاہیں، چاہ سکیں، جبکہ مذہبی نقطہ نگاہ سے اہم بات یہ نہیں کہ میں جو چاہنا چاہوں، چاہ سکنے پر قادر ہوں یا نہیں بلکہ یہ ہے کہ میں وہ چاہتا ہوں یا نہیں جو خدا چاہتا ہے کہ میں چاہوں۔ پس معلوم ہوا کہ نظریۂ آزادی کا معنی عبدیت کا ردّ ہے، یعنی اس بات کا انکار کرنا کہ انسان اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اس کا کام اس کی رضا حاصل کرنا ہے، کیونکہ آزادی کا مطلب انسان کے حق خودارادیت (self-determination) کا دعویٰ ہے۔ یہ تصور دراصل انسان کی بنیادی ضرورت یعنی ’حصول ہدایت کے لئے خدائی رہنمائی‘ سے انکار پرمبنی ہے۔
۲) اسلام اور مساوات
اسلامی نقطہ نگاہ سے نظریۂ مساوات کا معنی ہے نظامِ ہدایت و رشد کا ردّ، یعنی اس بات کا انکار کرنا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر بتانے کے لئے ہدایت کا کوئی سلسلہ انبیاء کرام کے ذریعے قائم کیا ہے نیز انسان کے پاس ایسی کوئی الہامی اطلاعات نہیں جو حتمی ہوں اور جن کی بنیاد پر وہ خواہشات اور اعمال میں ترجیح کا کوئی پیمانہ قائم کرسکے۔ ایسا اس لئے کہ نظامِ ہدایت کا معنی ہی یہ ہے کہ تمام انسانوں کی خواہشات کی ترتیب ہرگز مساوی معاشرتی حیثیت نہیں رکھتیں بلکہ وہ شخص جس کی خواہشات کی ترتیب تعلیماتِ انبیاء کا مظہر ہیں تو وہ تمام دوسری ترتیبوں پر فوقیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظریۂ ریاست آزادی (اور اسی لئے مساوات) کو بطور کسی ایسی معاشرتی قدر قبول نہیں کرتا جو ریاست سے اس بات کا تقاضا کرے کہ وہ خیر کے معاملے ’غیر جانبدار ‘ ہو کر تمام تصوراتِ خیر کے ’حقوق‘ کا ’مساوی‘ تحفظ کرے،