کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 200
ریاست کا بنیادی وظیفہ یہی ہے کہ وہ تمام تصورات خیر کے اظہار کو ممکن بنائے۔ چنانچہ plurality of goods نظریۂ آزادی و مساوات کا منطقی لازمہ ہے۔ ۱) اسلام اور آزادی واضح ہوا کہ مغربی تصورات ِآزادی و مساوات گویا مستقل اقدار (freedom as value) کی حیثیت رکھتی ہیں اور یہ جمہوری ریاست سے تقاضا کرتی ہیں کہ وہ ایسی معاشرتی و ریاستی صف بندی وجود میں لائے جو ہر فرد کی اس صلاحیت و حق کو بڑھاتی چلی جائے کہ وہ جو چاہنا چاہے، چاہ سکے اور اسے حاصل کرسکنے کا مکلف ہو سکے۔ اس کے مقابلے میں مذہبی نقطہ نگاہ سے آزادی کا مطلب ہے: ارادۂ خداوندی کے مظہر تصوارتِ خیرو شر کو اپنانے کی صلاحیت، یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو جسمانی و عقلی صلاحیتوں سے نوازا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کا انتظام کردینے کے بعد اسے مجبورِ محض نہیں بنایا بلکہ اسے یہ صلاحیت بھی عطا کی ہے کہ وہ حق کو اختیار کرکے اپنے ربّ کا فرمانبردار بنے یا اس کا انکارکرکے اس کا باغی کہلائے۔ دوسرے لفظوں میں مذہبی جبروقدر کی بحث میں آزادی کا مفہوم ہے: ’’مذہب کے طے کردہ خیرو شر میں سے کسی ایک کو اپنانے کی صلاحیت‘‘ (ability to choose between good and bad) نہ کہ خیر و شر متعین کرنے کا حق (جیسا کہ مغربی تصور ہے)۔ مذہبی تصورِ آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ اگر فرد اپنے ارادے سے کفر اختیار کرے گا تو وہی خیر ہوگا بلکہ اسے اس کی سزا بھگتنا ہوگی جیسا کہ اوپر بیان کردہ پوری آیت پڑھنے سے واضح ہوتا ہے جو یوں ہے: ﴿وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکُمْ فَمَنْ شَائَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَنْ شَائَ فَلْیَکْفُرْ اِنَّا اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًا﴾ (الکہف:۲۹) ’’فرما دیجئے کہ حق تو وہی ہے جو تمہارے ربّ کی طرف سے آیا ہے، تو جو چاہے اس حق کو مان لے اور جو چاہے انکار کردے، البتہ ہم نے (انکار کرنے والے) ظالموں کے لئے آگ تیار کررکھی ہے۔‘‘ چنانچہ اسلام آزادی ’بطورِ ذریعہ ‘ (freedom as resource) کا تو قائل ہے کہ