کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 199
تبدیل کر دینے کی خواہش رکھنے اور اس کے لئے جدوجہد کرنے کا حق حاصل نہیں، یہاں تک کہ ایک باپ کو نماز کے لئے اپنے بچوں پر جبر کرنے کا حق حاصل نہیں ہو سکتا۔[1] اگر فرد مذہبی زندگی کو ایک نفسیاتی دوا یا روحانی تسکین کے ایک ذریعے کے طور پر اپناتا ہے تو یہ قابل قبول ہے مگر مذہب کے معاشرتی و ریاستی اظہار کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ زندگی گزارنے کے تمام طریقوں کو مساوی معاشرتی قدر دینے کے اس رویے کا نام ٹولرنس ہے (جسے عام طور پر اسلامی تصور ’رواداری‘ سے خلط ملط کردیا جاتاہے) جس کا مغربی مفہوم یہ ہے کہ جب تمام افراد کی ذاتی خواہشات کی ترتیب اور زندگی گزارنے کے تمام طریقے مساوی ہیں تو ہر شخص کے لئے لازم ہے کہ وہ دوسرے کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے اُنہیں برداشت کرے۔ آزادی کے اُصول پر معاشرتی تشکیل تبھی ممکن ہے جب افراد اظہارِ ذات کے تمام طریقوں کو یکساں اہمیت دیں اور اُنہیں برداشت کرنے کا مادہ پیدا کریں، یعنی ٹولرنس کا مظاہرہ کریں۔[2] مغربی مباحث ِآزادی اور مساوات سے اخذ شدہ تصورات مثلاً ’ایک سے زائد اچھائیاں ‘ plurality of goods کا ذکر بھی یہاں افادیت سے خالی نہیں، کیونکہ یہ نظریات بھی جدید مفکرین کے لئے فکری اعتزال کا باعث بنے۔ plurality of goods کا مطلب یہ ماننا ہے کہ خیر کی بہت سی تعبیریں ہیں اور یہ تمام تعبیریں اُصولاً و اخلاقاً مساوی ہیں، نیز جمہوری