کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 198
(Equal) حیثیت رکھتے ہیں۔ مغربی تصورِ مساوات کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کے تعین قدر کی ترتیب کو یکساں اہمیت دی جائے اور کسی بھی فرد کے معیارِ خیر وشر اور اقداری ترجیحات کی ترتیب کو کسی دوسرے کی ترتیب پر فوقیت نہیں دی جانی چاہئے۔ ان معنی میں عبداللہ، ہنری اور ابرار کی خواہشات مساوی اقداری حیثیت کی حامل ہیں اور ان میں کسی ایک کو کسی دوسری پر ترجیح دینے کی کوئی بنیاد موجود نہیں۔ پس خود ارادیت (autonomy) کا ہر فرد یکساں مکلف ہے اور جمہوری ریاست کی تعمیر کے لیے صرف آزادی نہیں بلکہ مساوی آزادی (equal freedom) کوتسلیم کیا جانا ضروری ہے۔
نظریۂ رواداری (Doctrine of Tolerance): کا مطلب یہ ہے کہ انفرادی سطح پر اقدار کی ترتیب میں جس فرق کا اظہار لوگوں کی زندگیوں میں ہوتا ہے، اسے برداشت کیا جائے، یعنی یہ مانا جائے کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کی نگاہ میں خیر کا تصورکیا ہے، بلکہ اہم بات یہ ہے کہ فرد اس بات کا قائل ہو کہ ذاتی زندگی میں اقدار کی جو بھی ترتیب ہو مگر معاشرتی سطح پر وہ اس ترتیب کو قبول کرے گا جس میں اُصولِ آزادی (یعنی فرد کے اس حق کو کہ وہ خیر کی جو تعبیر کرنا چاہے، کرسکے) کی بڑھوتری کو مقدم رکھا جائے گا۔ Tolerance کا مطلب اختلافِ رائے کو برداشت کرنا نہیں، بلکہ اس کا مطلب اقداری ترتیب کے فرق کو غیر اہم اور لایعنی سمجھنا ہے۔[1]
چنانچہ آزادی و مساوات بطورِ اقدار اختیار کرنے کا لازمی تقاضا یہ ماننا بھی ہے کہ کسی بھی فرد کو اپنے تصورِ خیر (مثلاً مذہبیت) کی بنیاد پر کسی دوسرے شخص کے عمل پر تنقید کرنے یا اسے