کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 195
لوگوں کے نہ ملنے سے انہیں کوئی پریشانی نہیں ہوتی)‘‘( فتح الباری لابن رجب : 1/195)
اور فرمایا: ’’جب اللہ کی محبت دل میں جاگزیں ہوجاتی ہے تو اس بندے کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اُنس ہوجاتاہے۔ پھر اللہ کی ذات اہل معرفت کے سینوں میں سب سے عظیم ہوجاتی ہے اور یہ بھی سب سے کٹ کراس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔‘‘
الغرض علماء و زہاد کے اس طرح کے اقوال بے شمار ہیں، جن کااحاطہ تطویل کا باعث ہوگاجو ذکر ہوا اس میں بڑی کفایت ہے ان بیانات کی روشنی میں اس حدیث (حدیث جبریل علیہ السلام ) کی عظمت شان کا پتاچلتا ہے، کہ یہ حدیث تمام علوم ومعارف کی جامع ہے اور ہرطرح کے علوم و حکیم اس کی طرف راجع ہیں اور اُمت کے عظیم علماء و بزرگان کے علمی جواہرات جو وہ پیش کرتے ہیں اس حدیث سے باہرنہیں ہوتے جبکہ فقہاء کرام کاموضوع بحث عبادات کا ظاہر ہوتاہے جو یقیناً اسلام کے بنیادی خصائل میں سے ہے، اس کے بعد وہ اموال اور عصمتوں اور خونوں کے حقوق کی بحث کرتے ہیں جو سبھی بلا شبہ علوم اسلامیہ کا عظیم حصہ ہیں۔ مگر ان حضرات سے اسلام کی معنویات یعنی آداب و اخلاق کاایک بڑا حصہ رہ بھی جاتا ہے، جس کے متعلق یہ حضرات بہت کم بحث کرتے ہیں حتیٰ کہ شہادت توحید و رسالت کے معانی کی گہرائی میں بھی نہیں جاتے حالانکہ یہی بات اسلام کا اصل اصیل ہے اور دیگر حضرات جو ادیان کے اصول و مبادی پر بحث کرتے ہیں وہ شہادت توحید ورسالت، اللہ تعالیٰ (کی ذات وصفات اور اسماء حسنیٰ)کتب منزلہ، یوم آخرت اور تقدیر (اور ان کے حقائق پر) تفصیل سے بحث کرتے ہیں۔( الایمان از ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ : 244، 245) اور جو لوگ معرفت و سلوک کے باب میں کلام کرتے ہیں وہ مقام احسان اور قلبی احساسات (امور باطنیہ) کی تفصیلات واضح کرتے ہیں جو یقیناً ایمان کاموضوع ہے جیسے کہ خشیت الٰہی، محبت الٰہی، توکل علی اللہ، اللہ فیصلوں یعنی تقدیر پررضا اور صبر وغیرہ پر گفتگو جو یقینا ایمان کا موضوع ہیں۔[1] (مختصر معارج القبول شرح سلم الوصول : 180)
الغرض یہ حدیث جبریل علیہ السلام ان تمام اسلامی و شرعی علوم و معارف کی جامع ہے جن پرکہ مختلف طبقات کے علماء (اپنے اپنے انداز میں ) گفتگو کرتے ہیں، ان سب کا مرجع و محور یہی حدیث مبارک ہے۔