کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 194
کنت او بحر أو فی سھل أو فی جبل و کان شوقک إلیٰ لقاء الحبیب شوق الظمان إلی الماء البارد وشوق الجائع ای الطعام الطیب، ویکون ذکر ﷲ عندک أعلیٰ من العسل و اأعلیٰ من الماء العذب الصافی عند العطشان فی الیوم الصائف‘‘( حلیۃ الاولیاء: 8/67)
’’سب سے عظیم درجہ اور مقام تو یہ ہے کہ تم(مخلوقات سے) کٹ کر[1] اللہ کے ہو رہو اور اپنے عقل و شعور اور تمام اعضاء و جوارح کے ساتھ اللہ کے انیس بنو حتیٰ کہ تمہاری ساری کی ساری امیدیں اللہ ہی سے وابستہ ہوجائیں۔ اور اپنے قصوروں اور گناہوں سے ڈرتے رہو۔ اللہ کی محبت کو اپنے دل میں اس طرح سے جماؤ حتیٰ کہ کسی اور شے کو اس پر ترجیح حاصل نہ رہے۔ اگر تم اس طرح کے ہوگئے تو پھر خواہ جنگل میں ہوئے یا سمندر میں کسی میدان میں ہوئے یاپہاڑ پر۔ تو پھر تمہارا شوق اپنے حبیب حقیقی (جل جلالہ) کی ملاقات کے لیے ایسے ہوگا جیسے کسی پیاسے سے کو ٹھنڈے میٹھے پانی کی طلب ہوتی ہے، کسی بھوکے کوبہترین لذیذ کھانے کی خواہش ہوتی ہے۔ اللہ کا ذکر تمہارے لیے شہد سے بڑھ کر شیریں اور ٹھنڈے میٹھے صاف پانی کی خواہش سے بڑھ کر ہوجائے گا جو کسی تپتے دن میں ہوسکتی ہے۔‘‘
٭ جناب فضیل رحمۃ اللہ علیہ کاقول ہے: ’’مبارک ہے وہ شخص جو لوگوں کے جمگھٹوں سے گھبرا کر اللہ کا جلیس (و انیس) بن گیا۔‘‘
( حلیۃ الاولیاء: 8/108)
٭ ابوسلیمان رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : ’’ میں کبھی بھی اللہ تعالیٰ کو بھول نہیں سکتا ہوں۔‘‘
٭ جناب معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک آدمی سے کہا: ’’اللہ تعالیٰ پرتمہارا توکل اور اعتماد ایسا اور اس قدر ہو کہ وہ تمہارا جلیس و انیس بن جائے اور پھر تم اپنی جمیع حاجات اسی کو سنوا سکو۔‘‘( حلیۃ الاولیاء: 8/360)
٭ ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ: ’’اہل محبت کی علامت یہ ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کہیں اور سے اُنس نہیں ملتا اور اس کی معیت سے انہیں کوئی گھبراہٹ نہیں ہوتی (یعنی