کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 191
٭… اسی طرح ایک حدیث قدسی یہ ہے:
(( أنا مع عبدی إذا ذکرنی و تحرکت بی شفتاہ))
’’میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ میرا ذکر کرتا اورمیرے ذکر کے ساتھ اس کے ہونٹ حرکت کرتے ہیں۔‘‘
٭… اور فرمایا:
اور حدیث قدسی ہے کہ (( أنا مع ظن عبدی بی وأنا معہ حیث یذکرنی فإن ذکرنی فی نفسہ ذکرتہ فی نفسی، وإن ذکرنی فی ملأ ذکرتہ فی ملأ أخیر منہ، وإن تقرب منی شبرا تقربت منہ ذراعاً وإن تقرب منی ذراعاً تقربت منہ باعا وإن أتانی یمشی أتیتہ ھرولۃً))
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’میں اپنے بندے کے میرے متعلق گمان کے مطابق ہوتا ہوں اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جہاں بھی وہ مجھے یاد کرے، اگر وہ مجھے اپنے جی میں یاد کرے تو میں اسے اپنے جی میں یادکرتا ہوں، اگر وہ مجھے کسی جماعت میں یاد کرے تو میں اسے اس کی جماعت سے بہترجماعت میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ میری طرف ایک بالشت قریب ہو تو میں ایک ہاتھ برابر اس کی طرف قریب ہوجاتا ہوں۔ اگر وہ میری طرف ایک ہاتھ قریب ہو توایک باع برابر اس سے قریب ہوجاتا ہوں (دونوں بازوں کے پھیلاؤ کو باع کہتے ہیں ) اگر وہ میری طرف چل کے آئے تو میں اس کی طرف دوڑ کے آتا ہوں۔
تو اگر کوئی ان نصوص سے اللہ تعالیٰ کے بارے میں حلول یا اتحاد وغیرہ کے مفہوم سمجھتا اور کشید کرتا ہے تو یہ اس کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے متعلق سوء فہم اور جہالت ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان معانی و مفاہیم سے بری ہیں۔ پاک ہے وہ ذات جس کے مثل کوئی نہیں اور وہ خوب سننے والا دیکھنے والا ہے۔‘‘
متقی و زاہد حضرات کے بعض اقوال:
٭ جناب ابوبکر مزنی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : ’’اے ابن آدم! تیرے جیسا کون ہے؟ تیرے، تیرے محراب اور بحر (اُنس و معرفت) میں کوئی رکاوٹ نہیں، تم جب چاہو اپنے اللہ کے حضور حاضر ہوسکتے ہو، اور تمہارے اور اللہ کے درمیان کوئی ترجمان بھی نہیں ہوتا۔
اور جب کوئی ذکر و عبادت میں حضور و استحضار کا یہ مقام حاصل کرلیتا ہے تو وہ اللہ کا انیس