کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 190
ہے…‘‘(النساء :۴/۱۰۸) ٭ اوراحادیث طیبہ صحیحہ میں بھی اس بات کا ذکر موجود ہے کہ بندے کو چاہئے کہ عبادات میں بالخصوص اللہ تعالیٰ کے اس قرب کو اپنے دل ودماغ میں حاضر رکھے، مثلاً : ’’إن أحدکم إذا قام یصلّی فإنما یناجی ربّہ‘‘ ’’تم میں سے جب کوئی نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے مناجات کررہا ہوتا ہے۔‘‘ یا اس طرح بھی آتا ہے: ’’ربّہ بینہ وبین القبلۃ‘‘ ’’نماز کے وقت اس کا رب اس کے اور قبلے کے درمیان ہوتا ہے۔‘‘ یا یہ الفاظ آئے ہیں : ’’إن ﷲ قبل وجھہ إذا صلّی‘‘ ’’جب بندہ نماز پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کے سامنے ہوتا ہے۔‘‘ ایک روایت کے لفظ اس طرح ہیں : (( إن الله ینصب وجھہ لوجہ عبدہ فی صلاۃ مالم یلتفت)) [1] ’’اللہ تعالیٰ نماز کے دوران میں اپنا چہرہ بندے کے چہرے کی طرف کرلیتا ہے۔ جب تک کہ وہ التفات نہ کرے۔‘‘ ٭…ایک بار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تکبیر پکارنے میں آوازیں کچھ بلند ہوگئیں، تو آپ علیہ السلام نے انہیں تفہیم فرمائی کہ: (( إنکم لا تدعون أحتم ولاغائبا إنکم تدعون سمیعاً قریباً)) ’’تم لوگ کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکارتے ہو بلکہ اس ذات کو پکارتے ہو، جو خوب سننے والا قریب ہے۔‘‘ اور ایک روایت میں آیا ہے کہ: (( وھو أقرب إلیٰ أحدکم من عنق راحلتہ)) ’’وہ تو تم سے تمہاری سواری کی گردن سے بھی زیادہ قریب ہے‘‘ اور ایک روایت کے الفاظ اس طرح ہیں : (( ھو أقرب إلی أحدکم من حبل الورید)) ’’وہ تو تم سے تمہاری رگِ جاں سے بھی زیادہ قریب ہے۔‘‘