کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 188
عارفین کے کچھ اقوال: ٭… بعض عارفین کا قول ہے: اس بات سے ڈرو کہ کہیں اللہ تمہیں حقارت سے نہ دیکھتا ہو۔ ٭… بعض نے کہا: اللہ سے ڈرو اور خیال کرو کہ وہ تم پر کس قدر عظیم قدرت رکھتا ہے۔ ٭… بعض نے کہا: عارف تو وہ ہے جو اللہ کے لیے عمل کرے اور اس تصور سے کرے گویاوہ اسے دیکھتا ہے اور جو اس کیفیت سے عبادت کرے کہ ’’اللہ اسے دیکھ رہا ہے‘‘ تو وہ ’’مخلص‘‘ ہوتا ہے۔ اور اس قول میں مذکورہ بالا دونوں مراتب و مقامات کا اشارہ ہے۔ یہ دوسرا مرتبہ، مقام اخلاص ہے اور اس کا لازمی تقاضا ہے کہ بندہ عبادت میں ادھر ادھر نہ جھانکے، صرف اس کی رضا کو پیش نظر رکھے اور پہلا مقام، مقام مشاہدہ ہے یعنی بندہ اپنے دل میں یہ تصور جمائے اور اس طرح کے حضور قلب سے عبادت کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کے مشاہدہ میں ہے۔ اس طرح اس کا دل ایمان سے منّور اور اس کی بصیرت مقام عرفان تک پہنچ جائے گی۔ حتیٰ کہ غیب عیان بن جائے گا اور یہی وہ مقام احسان ہے جس کا حدیث جبریل میں بیان ہوا ہے۔ اور ان مقامات کے اصحاب اپنے اپنے درجات بصیرت کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔ اور علماء کی ایک جماعت نے آیت کریمہ ﴿وَلَہُ الْمَثَلُ الاَعْلٰی فِیْ السَّمٰوَاتِ وَالاَرْضِ﴾ (الروم:۳۰/۲۷) ’’اس کی بہترین اور اعلیٰ صفت ہے، آسمانوں میں اور زمین میں بھی‘‘… میں ’’مثل اعلیٰ‘‘ کی یہی تفسیرکی ہے جس کا اوپر بیان ہوا ہے۔ اس طرح سورہ النور آیت ۳۵ میں ﴿َﷲُ نُوْرُ السَّمٰوَاتِ وَالاَرْضِ مَثَلُ نُوْرِہِ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْھَا مِصْبَاحٌ…﴾ کی تفسیرمیں یہی بیان کرتے ہیں کہ ’’اللہ کے نور کی مثال جو مؤمن کے دل میں ہوتا ہے۔ مثل ایک طاق کے ہے، جس میں چراغ ہو اور چراغ شیتے کی قندیل میں ہو اور شیشہ مثل چمکتے ہوئے روشن ستارے کے ہو… الخ‘‘ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ سلف امت سے اس کی یہی تفسیر وارد ہے۔ اور احادیث میں ایک حدیث یہ بھی ہے کہ (( افضل الإیمان أن تعلم أن ﷲ معک حیث کنت)) ’’سب سے افضل ایمان یہ ہے کہ