کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 187
عریاں ہوجائے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ﷲ احق أن یستحیامنہ‘‘ ’’اگر سامنے اور کوئی آدمی نہ بھی ہو تو … اللہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے حیا کیا جائے‘‘ (یعنی اکیلے میں بھی آدمی کو لایعنی طور پر بے لباس عریاں نہیں ہوناچاہئے) ٭… صحابی رسول حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اعبدﷲ کأنک تراہ‘‘ ’’اللہ کی عبادت ایسے کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو‘‘ ٭… ایک بار حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ طواف میں تھے، اور عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بھی … کہ اس دوران عروہ نے جناب عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ان کی صاحبزادی کے متعلق نکاح کی بات کرنا چاہی تو حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا بلکہ مدینہ منورہ واپس پہنچے تو دوران طواف میں جواب نہ دینے پر معذرت کی، اورکہا کہ بھئی! اس وقت جب تم نے بات کی تھی، ہم طواف کررہے تھے، اور اس دوران میں تو ہم اپنے اللہ کو اپنے سامنے خیال کرتے ہیں ! (بحوالہ ابونعیم وغیرہ) ٭… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے: (( فإن لم تکن تراہ فإنہ یراک))’’اگر تم پہلے والی کیفیت حاصل نہ کرسکو تو یہ ضرور ہو کہ خیال کرو کہ وہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘ یہ جملہ گویا پہلے کی علّت اور سبب ہے۔ بندے کو جب حکم دیاگیا کہ وہ اپنے اللہ کو اپنے تصور میں لائے، کہ دوران عبادت میں وہ اسے دیکھ رہا ہے، او وہ اپنے بندے کے بہت زیادہ قریب ہے، اتنا قریب کہ بندہ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ اگر یہ کیفیت نہ بن سکے تو اسے اپنے اس ایمان سے مدد لینی چاہئے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے، وہ اس کے ظاہراور باطن سے آگاہ ہے اور اس کی کوئی حالت اور کیفیت اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ بندہ جب یہ مقام و مرتبہ حاصل کرلے گا تو اس طرح اس کے لیے پہلے مقام کا وصول بہت آسان ہوجائے گا کہ اس پر یہ کیفیت اور بصیرت طاری رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے بے انتہا قریب ہے، اس کی معیت میں ہے یا کم از کم اسے دیکھ رہا ہے۔ اور کہا جاتاہے کہ جس شخص کے لیے اس کیفیت میں عبادت کرنا مشکل ہو تو اسے یہ دوسری کیفیت ضرور ہی طاری کرنی چاہئے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے، اسے جھانک رہا ہے تو اسے اس سے حیا کرنی چاہئے کہ اس سے کوئی خلاف ادب بات یا فعل صادر ہو۔