کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 186
’’أن النبی! قال لہ یا حارثۃ کیف اصحبت؟ قال: اصبحت مؤمناً حقاً، قال: انظر ماتقول، فإن لکل قول حقیقۃً۔قال:یارسول الله !! عزفت نفسی عن الدنیا فأسہرتُ لیلی و أظمأت نھاری، وکأنی انظر إلیٰ عرش ربی بارزاً، وکأن انظر اھل الجنۃ فی الجنۃ کیف یتزاوروں فیھا، وکأنی انظر إلیٰ اھل النار کیف یتعاورون فیھا، قال:البصرت، فالزم، عبد نوّر ﷲ الایمان فی قلبہ‘‘
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اے حارثہ کس حال میں تو نے صبح کی ہے؟ انہوں نے کہا: حضرت! مومن حق ہوتے ہوئے میں نے صبح کی ہے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوچ تو کیا کہہ رہے ہو؟ ہربات کی ایک حقیقت ہوتی ہے۔؟ انہوں نے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے اپنے آپ کو دنیا سے بے رغبت کرلیا ہے، راتوں کو جاگتا ہوں، دن میں اپنے آپ کو پیاسا رکھتا ہوں، ایسے محسوس کرتا ہوں جیسے اپنے رب کے عرش کو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ گویا اہل جنت کو دیکھ رہاہوں کہ کیسے کیسے ایک دوسرے کی زیارت کو جارہے ہیں اور اہل نار کو دیکھتا ہوں کہ کیسے کیسے بھگت رہے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے بصیرت حاصل کرلی ہے۔ تو اب اسے لازم پکڑے رہنا۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ایسا بندہ ہے کہ اللہ نے اس کے دل کو ایمان سے منور کردیا ہے۔‘‘
’’اللہ سے حیا کرنا‘‘
٭…حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو وصیت فرمائی اورکہا:
’’استحی من ﷲ استحیاء ک من رجلین من صالحی عشیرتک لایفار قانک‘‘
’’اللہ سے ایسے حیا کرو جیسے تم اپنے قوم قبیلے کے دو صالح بندوں سے حیا کرتے ہو، جو تم سے جدا نہیں ہوتے۔‘‘
٭… اسی طرح ایک مرسل روایت میں ہے: ’’استحي من ربک‘‘ ’’اپنے رب کا حیا کیا کرو‘‘
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن کی طرف بھیجا گیاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک وصیت یہ بھی فرمائی تھی:
’’استحي من ﷲ کما تستحی من رجل ذاھیبۃ من أھلک‘‘
’’اپنے رب سے اسی طرح حیاکرو جیسا کہ تم اپنے اہل کے کسی باہیبت آدمی سے حیاکرتے ہو‘‘
٭… ایک بار کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ دریافت کیا کہ کیا آدمی جب اکیلا ہو تو بے لباس اور