کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 184
’’جنہوں نے (درجہ احسان میں ) نیکی کی تو ان کے لیے خوبی ہے اور مزید برآں بھی۔‘‘
٭ صحیح مسلم میں اس’مزید‘ کی یہ وضاحت آئی ہے کہ اس سے مراد جنت میں ’’اللہ عزوجل کے چہرۂ انور کا دیدار‘‘ ہے۔
جو اِن محسنین کے عمل احسان کے ساتھ مناسبت کی وجہ سے ہوگا کیونکہ ان کے اعمال درجہ احسان تک اسی وجہ سے بلند ہوئے کہ وہ دنیا میں رہتے ہوئے اپنے ربّ کی عبادت ایسے حضورِ قلبی اور اپنے ربّ کے مراقبہ کی کیفیت میں کرتے تھے گویاوہ اسے اپنے دل سے دیکھ رہے ہوتے تھے تو اس کی جزا ان کے لیے یہ ہوئی کہ وہ آخرت میں اپنے اللہ کو اپنی آنکھوں سے عیاناً دیکھیں گے۔
جبکہ ان کے برعکس کفار کے متعلق یہ بتایاگیا ہے کہ
﴿إِنَّھُمْ عَنْ رَّبِّھِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ﴾(المطفّفین:۸۳/۱۵)
’’یہ کفار… اس دن اپنے ربّ سے اوٹ میں رکھے جائیں گے‘‘
اور یہ ان کے اس حال کابدلہ ہوگا جو وہ دنیا میں کرتے رہے کہ ان کے دلوں پر گناہوں کے زنگ کی تہیں جمتی رہیں اور اُنہیں اس حال تک پہنچا دیا کہ اُنہیں اللہ کی معرفت اور اس کے مراقبہ کا کبھی کوئی خیال نہ آتاتھا تو آخرت میں اللہ عزوجل کے دیدار کی نعمت اور اِعزاز سے محروم ہوگئے۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمانِ مبارک جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کی یہ تفسیر و توضیح فرمائی ہے کہ (( أن تعبد ﷲ کأنک تراہ)) ’’تو اپنے اللہ کی عبادت ایسے اور اس کیفیت میں کر گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے۔‘‘ اس کیفیت کے طاری ہونے کا حاصل اورنتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ عزوجل کے سامنے حاضر پاتا ہے، گویا اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔چنانچہ اس سے بندے میں اللہ کی خشیت، خوف، ہیبت اور تعظیم کے جذبات میں اضافہ ہوتا ہے جیسے کہ حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے(( أن تخشٰی ﷲ کأنک تراہ))
’’تو اللہ سے اس طرح ڈر گویاکہ تو اسے دیکھ رہا ہو۔‘‘
ان تعلیمات کا لازمی تقاضا اور مطالبہ یہ ہے کہ بندہ اپنے اللہ کی عبادت میں خلوص کی انتہا کے اس مقام تک پہنچنے کی کوشش کرے اور عبادت کے اکمال و اتمام اور تحسین میں اپنی تمام توانائیاں صرف کردے۔