کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 182
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اسلام کے متعلق فرمائیے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو اس بات کی شہادت (گواہی) دے کہ اللہ کے علاوہ اور کوئی عبادت کے لائق نہیں، اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ نماز قائم کر، زکوٰۃ دے، رمضان کے روزے رکھ اور اگر بیت اللہ تک پہنچنے کی استطاعت ہو تو اس کا حج کر۔ اس نے کہا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔ عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں بڑا تعجب ہوا کہ خود ہی سوال کرتا اور پھر اس کی تصدیق بھی کرتا ہے۔
پھر اس نے کہا: مجھے ایمان کے متعلق بتائیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تو اپنے دل کی گہرائی سے اللہ کو مانے، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں اور رسولوں کو مانے، آخرت کے دن اور تقدیر کے بھلے بُرے ہونے پر یقین رکھے۔ اس نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔
اس نے کہا:مجھے’احسان‘ کے متعلق فرمائیے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اللہ کی عبادت اس طرح سے کر گویا کہ تو اُسے دیکھ رہا ہے، اگر یہ کیفیت نہ ہوسکے تو یہ ہو کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔اس نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔
اس نے کہا: مجھے قیامت کے متعلق بتائیے؟ فرمایا: مسؤل (جس سے تم پوچھ رہے ہو) اس کے متعلق خود سائل (پوچھنے والے)سے کچھ زیادہ نہیں جانتا۔
تو اس نے کہا: مجھے اس کی علامت بیان فرمائیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو دیکھے گا کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دے گی اور تو دیکھے گا کہ پاؤں سے ننگے، جسم سے ننگے، تنگ دست، بکریوں کے چرواہے اونچی اونچی عمارات بنانے لگیں گے۔پھر وہ چلا گیا۔
اورمیں کچھ وقت ٹھہرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے عمر رضی اللہ عنہ ! جانتے ہو، یہ سائل کون تھا؟ میں نے عرض کیا:اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔
فرمایا: یہ جبرئیل علیہ السلام تھے، جوتمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔ ‘‘
’احسان‘
’احسان‘[1] کا قرآن کریم میں کئی مقامات پر ذکر آیا ہے۔ کہیں ’ایمان‘ کے ساتھ ملاکر، کہیں ’اسلام‘ کے ساتھ اور کہیں ’تقویٰ‘ اور ’عمل صالح‘ کے ساتھ، مثلاً :