کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 181
موضوع بنائیں۔ یقینا یہ عظیم، اہم اور کرنے کا کام ہے۔ وباﷲ التوفیق
حدیث جبرئیل علیہ السلام کا متن
عن عمر بن الخطاب قال بینما نحن [جلوس] عند رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ذات یوم إذ طلع علینا رجل شدید بیاض الثیاب، شدید سواد الشعر، لا یُری علیہ أثر السفر، ولا یعرفہ منا أحد، حتی جلس إلی النبي صلی اللہ علیہ وسلم فأسند رکبتیہ إلیٰ رکبتیہ ووضع کفیہ علی فخذیہ، وقال: یا محمد! أخبرني عن الإسلام۔ فقال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : الاسلام : أن تشھد أن لا إلہ إلا ﷲ وأن محمدًا رسول الله، وتقیم الصلاۃ وتؤتي الزکاۃ وتصوم رمضان وتحج البیت إن استطعت إلیہ سبیلا۔ قال: صدقت،
قال: فعجبنا لہ یسألہ ویصدقہ
قال: فأخبرني عن الإیمان؟ قال: أن تؤمن باﷲ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الآخر، وتؤمن بالقدر خیرہ وشرہ قال: صدقت۔
قال: فأخبرني عن الإحسان؟ قال: أن تعبد ﷲ کأنک تراہ فإن لم تکن تراہ فإنہ یراک۔ قال: صدقت۔
قال: فأخبرني عن الساعۃ؟ قال: ما المسؤول عنھا بأعلم من السائل۔
قال: فأخبرني عن أماراتھا، قال: أن تلد الأمَۃ ربَّتھا وَأن تَرٰی الحفاۃ العراۃ العالۃ رعاء الشاء یتطاولون في النبیان
ثم انطلق فلبث ملیا ثم قال: یا عمر! أتدري من السائل؟ قلت: ﷲ ورسولہ أعلم۔ قال: ھذا جبریل أتاکم یعلمَکم دینکم
(صحیح بخاری : کتاب الایمان، باب سوال جبریل النبي صلی اللہ علیہ وسلم عن الإیمان: حدیث ۵۰( صحیح مسلم:9 )
’’سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار اتفاق سے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی ہمارے سامنے آیا۔ انتہائی سفید کپڑے اوربال بڑے ہی سیاہ تھے۔ اس پر سفر کی علامات بھی نہ تھیں، اور نہ ہی ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا۔حتیٰ کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا اور اپنے گھٹنے آپ کے گھٹنوں کے ساتھ ملا لئے، اور اپنی ہتھیلیاں آپ علیہ السلام کے گھٹنوں پر (یا اپنے گھٹنوں ) پر رکھ لیں، اور کہنے لگا :