کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 180
کردے۔[1] وﷲ المستعان یہ ظاہری افعال اوربے سمجھے کی تسبیحات اس بات کی تو یقینا دلیل ہوتی ہیں کہ ان کا قائل و فاعل (اگر وہ فی الواقع منافق نہ ہو تو) بنیادی طور پر نعمت ِاسلام و ایمان سے بہرہ ور ضرور ہے مگر عبادت کی حقیقت اور روح سے محروم ہے۔جسے حاصل کرنے کے لیے ہرعالم و عامی کو بہرطور بہت زیادہ محنت، کوشش اورمجاہدہ کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ نفس امارہ کا ٹٹو اس جادۂ حق و استقامت پرچلنے سے بالعموم انکاری ہوتا ہے یاچلتے چلتے بڑی جلدی بھٹک جاتاہے ﴿إِنَّ النَّفْسَ لأمَّارَۃ ٌباِلسُّوْئِ﴾اور نماز میں وسوسہ ڈالنے والا شیطان خِنزب اسے معمولی سے اشارے سے دوسری راہ پر لگا دے تو یہ بے تکلف اسی کے پیچھے دوڑنے لگتا ہے۔ ولاحول ولا قوۃ إلا باﷲ۔ حافظ شیرازی لکھتے ہیں : آقائے ما نگہدار آبروے گدائے خویش کہ از جوے دیگراں پُر نکند پیالہ را[2] راقم کے یہ غیر مرتب سے متواضع حروف اگر اصحابِ منبر و محراب یا صاحبانِ درس و تدریس کی نظروں میں کچھ وقعت پائیں تو گزارش کروں گا کہ قرآنِ کریم کے درس، حدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے سبق اور اپنے خطبہ و درس میں مقام احسان اور خشوع فی الصلوٰۃ و الاذکار وغیرہ کو اپنا خاص