کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 179
سے بے چین، پیاسی اور مشتاق رہی ہیں کہ کاش کہیں سے کوئی جانفزا جھونکا آئے تاکہ اس کثافت بھری دنیا میں کوئی سکھ کا سانس لے سکیں، کوئی اطمینان و سکون ملے، سُوکھے ہونٹوں کو تراوت اور نظروں کو طراوت ملے۔ اللہ ربّ العٰلمین، ارحم الراحمین نے اپنے بندوں کی جملہ مادی ضروریات کے ساتھ ساتھ ان کی حقیقی ضرورت و طلب یعنی قلبی و روحانی تسکین کے اسباب سے بھی اُنہیں خالی اور محروم نہیں چھوڑا ہے۔ اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی تعلیمات نے ہر دور میں آدم زاد کی یہ فطری ضرورت پوری فرمائی ہے اوربالخصوص رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد ِباسعادت کے بعد تو اس نعمت کا اتمام و اکمال ہوچکا کہ ﴿اَلَا بِذِکْرِ ﷲِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ﴾’’خبردار! اللہ ہی کے ذکر میں دلوں کا اطمینان و سکون ہے۔‘‘ مگر ایک بڑی تعدادہے جو اس کے اعلانِ عام اور منادی کے باوجود اس طرف کان نہیں دھرتی اور اپنی طبعی اور روحانی بھوک پیاس کو کثافتوں سے مٹانے کی ناکام کوشش میں ہے۔ ’جامع العلوم والحکم‘ ساری کتاب ہی ’آبِ حیات‘ ہے۔ میں نے احسان واخلاص فی العبادت سے متعلق یہ چند صفحات اپنے قارئین کے نذر کئے ہیں اور نیت یہ ہے کہ کاش ہماری زندگیوں میں بالعموم اور عبادات و اذکار میں بالخصوص اللہ کی طرف توجہ، اور اس کی طرف خاص دھیان حاصل ہو، اور زبان سے ادا ہونے والے کلمات اور جوارح سے صادر ہونے والی حرکات کی حقیقت ذہن میں مستحضر رہے تاکہ یہ اعمال فی الواقع ’عبادت‘ بنیں، محض عادت نہ رہ جائیں اور اللہ کے حضور درجاتِ عالیہ کاشرف پائیں اور ان انعامات و اکرامات سے بہرہ ور ہوں جن کاوعدہ اس منعمِ حقیقی نے فرمایا ہے۔ اگر عبادت اور اذکار و تسبیحات میں محض رٹے رٹائے الفاظ دہرا دیئے جائیں اور جسم چند حرکات کرکے فارغ ہوجائے اور قلب و روح کو ان کی حقیقت کاعلم ہی نہ ہو تو اس ساری کارگزاری اور ایک منتر کے عمل میں بظاہر کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔بے توجہ اور بے روح عبادت کا معاملہ اس رحمن و رحیم کے حضور ہے، چاہے تو قبول فرما لے اور عین ممکن ہے کہ ردّ بھی